Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واٹس ایپ پر سرکاری پیغام کا بروقت جواب نہ دینے پر 1000 روپے جرمانہ، جھنگ کے کالج کی نئی پالیسی کیا ہے؟

پنجاب کے ضلع جھنگ میں ایک سرکاری فنی تربیتی ادارے نے عملے کو بروقت جواب دینے کا پابند بنانے کے لیے منفرد پالیسی متعارف کرائی ہے۔
گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ احمد پور سیال کے پرنسپل نے نوٹس جاری کیا ہے جس کے تحت سرکاری واٹس ایپ پیغامات کا بروقت جواب نہ دینے والے ملازمین پر ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا، جو ملازم کی تنخواہ سے کاٹا جائے گا۔
یہ سرکاری نوٹس ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ احمدپور سیال کے پرنسپل جاوید چوہدری کی جانب سے جاری کیا گیا ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق اس نوٹس کا مقصد سٹاف کے درمیان مؤثر اور بروقت رابطے کو یقینی بنانا ہے اور عملے کو متحرک کرنا ہے۔
نوٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کے واٹس ایپ گروپ میں بھیجے گیے سرکاری پیغام یا درخواست کا جواب اسی وقت یا مقررہ وقت کے اندر دینا ضروری ہے اور اگر پیغام میں کوئی کام، معلومات، دستاویز، حاضری کی تصدیق یا کسی ذمہ داری کی تکمیل شامل ہو تو متعلقہ عملہ بروقت جواب دے یا تکمیل کا وقت بتائے بصورت دیگر جواب نہ دینے کی پاداش میں جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ پاکستان بھر میں فنی تعلیم فراہم کرنے کے ذمہ دار سرکاری ادارے ہیں جہاں نوجوانوں کو مختلف ٹریڈز اور دیگر پیشہ ورانہ مہارتوں میں تربیت دی جاتی ہے۔ 
پرنسپل کی جانب سے جاری نوٹس کے مطابق بعض اوقات ہیڈ آفس یا انتظامیہ کی ضرورت کے مطابق دفتری اوقات کے بعد بھی پیغام کا جواب دینا ضروری ہوتا ہے اور اس لیے عملے سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی بروقت جواب دیں۔ دو افراد یعنی انسٹرکٹر اور لیب اسسٹنٹ کی جانب سے اگر واٹس ایپ پیغام کا جواب بروقت نہ دیا گیا تو دونوں کو برابر کا ذمہ دار سمجھا جائے گا اور دونوں پر جرمانہ عائد ہوگا۔
نوٹس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ عملے کا کوئی رکن اگر بغیر کسی معقول وجہ یا پرنسپل کی پیشگی اجازت کے سرکاری پیغامات کا جواب نہیں دیتا تو اسے سرکاری فرائض میں غفلت تصور کیا جائے گا۔

پرنسپل جاوید چوہدری نے کہا کہ پوری دنیا سوشل میڈیا پر آگئی ہے لیکن پاکستان میں لوگوں کو اب بھی سمجھانا پڑ رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

نوٹس میں بتایا گیا ہے کہ سٹاف کا جو بھی رُکن ان ہدایات پر عمل نہیں کرے گا تو اسے پہلے تحریری طور پر تنبیہ کی جائے گی۔ یہ عمل اگر دوبارہ دہرایا گیا تو ایک ہزار روپے جرمانہ کیا جائے گا جو عملے کی تنخواہ سے کاٹا جائے گا۔
پرنسپل ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ احمد پور سیال جاوید چوہدری نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’جرمانہ عائد کرنے سے قبل متعلقہ عملے کو تحریری نوٹس دیا جائے گا تاکہ وہ 48 گھنٹوں کے اندر اپنی وضاحت دے سکے اور انتظامیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حالات کی تصدیق کرے اور وجوہات کا جائزہ لے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر عملے کا پیش کیا گیا عذر یا وضاحت مناسب نہ ہوئی تو جرمانہ لاگو کیا جائے گا اور اس واقعے کا اندراج متعلقہ ملازم کے فائل ریکارڈ میں کر دیا جائے گا۔‘
پرنسپل جاوید چوہدری نے کہا کہ پوری دنیا سوشل میڈیا پر آگئی ہے اور ہر جگہ ٹیکنالوجی کو قریب سے استعمال کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں لوگوں کو اب بھی سمجھانا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے اپنی پالیسی سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہیڈ آفس سے ہمارے افسران بالا جب بھی ہم سے کوئی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو انہیں فوری طور پر ڈیٹا دینا ہوتا ہے، لیکن ہمارا ماتحت سٹاف یہ ماننے پر تیار نہیں ہوتا۔ ماتحت سٹاف کی طرف سے عموماً ہمارے پیغامات کا جواب دیر سے دیا جاتا تھا۔ اس لیے ہم نے یہ پالیسی بنائی کہ جو بھی واٹس ایپ گروپ میں پیغام آئے گا اس پر بروقت جواب دیا جائے گا ورنہ جرمانہ بھی عائد ہوسکتا ہے۔‘

پرنسپل نے کہا کہ پالیسی کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور پورا سٹاف اپنا کام کر رہا ہے (فوٹو: فیس بک)

’ساری دنیا ڈیجیٹل ہوگئی ہے اور یہ ایک واٹس ایپ کا جواب نہیں دیتے تو ایسی صورت میں کام کیسے ہوگا؟ ہم سے اوپر والے جواب مانگتے ہیں اور ہم یہاں اپنے ماتحت کو فون کر کے بتا رہے ہوتے ہیں کہ واٹس ایپ پر میسج کیا ہے وہ دیکھ لیں۔ اگر واٹس ایپ میسج کے لیے بھی کال کرنی پڑے تو کیا یہ پالیسی نہیں ہونی چاہیے؟‘
ان کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے پہلے بھی اپنے سٹاف کو بہت سمجھایا ہے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ اب ماضی کی خط و کتابت والا دور گزر گیا ہے۔ فوری میسج آتا ہے اور فوری کام کرنا ہوتا ہے۔ ان سب کو بارہا سمجھایا ہے مگر کوئی جواب نہیں آیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی کی تشکیل کو چند روز ہی گزرے ہیں لیکن مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور پورا سٹاف اپنا کام کر رہا ہے۔

 

شیئر: