Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمل ہاسن جن کا فن ’زبان سے نہیں بلکہ دل سے مکالمہ‘ کرتا ہے

کمل ہاسن 7 نومبر 1954 کو تمل برہمن اینگر خاندان میں پیدا ہوئے۔ فوٹو: ہندوستان ٹائمز
ہندی زبان میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ یعنی پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ بات انڈیا کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے پرمکڈی قصبے میں جنم لینے والے ایک کمسن لڑکے پر ثابت آتی ہے جس نے چھے برس کی عمر میں ’کلاتھور کنّمّا‘ میں پہلا کردار ادا کیا۔
یہ اداکار کوئی اور نہیں بلکہ کمل ہاسن تھے جو آج ہی کے دن یعنی 7 نومبر 1954 کو تمل برہمن اینگر خاندان میں پیدا ہوئے۔ یعنی آج وہ 70 سال کے ہو گئے اور اپنی 71ویں بہار میں قدم رکھا ہے۔
کلاتھور کنّما میں اداکاری کے وقت شاید اُنھیں یا کسی کو بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ ایک وقت وہ انڈین انڈسٹری کو زبان و بیان کی قید سے آزاد کر کے اس پر راج کریں گے۔
کمل ہاسن کی پہلی اداکاری نے نہ صرف ناظرین کو حیران کیا بلکہ اُنہیں صدرِ جمہوریہ کا طلائی تمغہ بھی دلوایا۔
انڈیا کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہاتھوں سے تمغہ وصول کرتے ہوئے اُن کی جھجک میں جو معصومیت تھی وہی آگے چل کر اُن کے فن کا خاصہ بن گئی، یعنی ان میں ایک بے ساختگی اور سچائی نظر آئی تھی۔
لیکن ہندی سینما کو ان کو پہنچانے میں کافی وقت لگ گيا۔ اس میں جہاں کمل ہاسن کی اپنی ہچکچاہٹ شامل تھی وہیں انڈین سینما کی واضح تقسیم بھی رخنہ تھی۔
ہندی سنیما میں آمد
واضح رہے کہ 1970 کی دہائی کے آخر تک کمل ہاسن تمل اور تیلگو سنیما میں اپنی مختلف النوع اداکاری سے شہرت حاصل کر چکے تھے اور ایک سپر سٹار کے طور پر دیکھے جانے لگے تھے۔
اسی دوران بالی وُڈ کے فلم سازوں کو اُن میں ایک نئی توانائی نظر آئی۔ بالی وڈ نے انہیں ایک ایسے فنکار کے روپ میں دیکھا جو سچائی کو برقرار رکھتے ہوئے کردار کے رنگ بدل سکتا اور اس کی سطح بلند کر سکتا ہے۔
شمالی ہند کے ناظرین نے پہلی بار انہیں فلم ’ایک دوجے کے لیے‘ میں دیکھا یہ فلم 1981 میں ریلیز ہوئی اور اس نے راتوں رات دھوم مچا دی۔ اس نے نہ صرف کمل ہاسن کو شمالی ہند میں متعارف کرایا بلکہ زبان کی سرحد پر بھی مباحثہ چھیڑ دیا۔

کمل ہاسن کی پہلی اداکاری نے نہ صرف ناظرین کو حیران کیا بلکہ اُنہیں صدرِ جمہوریہ کا طلائی تمغہ بھی دلوایا۔ فوٹو: انڈین ایکسپریس

یہ صرف ایک فلم نہیں بلکہ دو ثقافتوں کے ملاپ کی کہانی تھی جس میں جنوبی ہندوستان کے ایک لڑکے اور شمالی ہند کی لڑکی کی محبت کو پیش کیا گيا ہے۔ اس فلم اور اس میں پیش گئی محبت نے اُس وقت پورے ملک کو ایک دھاگے میں پرو دیا۔
کمل ہاسن نے اپنی ہندی زبان کی کمزوری کو کمزوری نہیں بننے دیا، بلکہ کردار کا ایک حصہ بنا دیا۔ وہ رات رات بھر مکالمے ریکارڈ کرتے، تلفظ کی مشق کرتے، اور اس دوران جذباتی سچائی کو مقدم رکھتے۔
کمل ہاسن نے ایک بار ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ فلم کے لیے ’زبان سیکھنا نہیں، بلکہ محسوس کرنا میرا مقصد تھا۔‘
اس فلم میں ان کے ساتھ نئی اداکارہ رتی اگنی ہوتری تھیں اور کہا جاتا ہے کہ فلم کے دوران یا اس کے بعد ان دونوں کی کبھی نہیں بنی۔ یہ فلم پہلے تمل زبان میں بن چکی تھی اور اس لیے کمل ہاسن اس کے ہر پہلو سے واقف تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہدایت کار اور فلمساز بالاچندر سے ان کی خوب بنتی تھی جبکہ رتی بالکل نئی تھیں لیکن ہندی سینما سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ان میں ایک انا تھی اور یہی ان دونوں میں ٹکراؤ کا سبب تھا۔
اس وقت تک کمل ہاسن کی وانی گنپتی سے شادی ہو چکی تھی لیکن وہ عشق بازیوں کے بار ے میں بہت بدنام تھے۔ اس وقت اداکارہ ساریکا کے ساتھ ان کے رومانس کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ دی ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق صحافی ٹی بھاردواج نے ان کی اہلیہ وانی سے ایک انٹرویو شائع کیا جس میں انہوں نے کمل ہاسن پر اپنی بھڑاس نکالی کہ اسی دوران ساریکا کے حمل سے ہونے کی خبر آگئی۔
فلم صدمہ سے ساگر تک: کمل ہاسن اپنے جذبات کی انتہا پر
بہر حال جہاں فلم ’ایک دوجے کے لیے‘ اُنہیں ہندی دنیا میں متعارف کرایا وہیں 1983 میں ایک اور جنوبی اداکارہ سری دیوی کے ساتھ آنے والی فلم ’صدمہ‘ نے اُنہیں امر کر دیا۔
اس فلم میں وہ ایک ایسے شخص کا کردار ادا کرتے ہیں جو ایک یادداشت کھو چکی عورت (سری دیوی) کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ آخری منظر میں جب وہ پلیٹ فارم پر بھاگتا ہوا اُس سے ملنے کی کوشش کرتا ہے، تو سینما ہال میں خاموشی چھا جاتی ہے، ایک ایسی خاموشی جو صرف دلوں کی دھڑکن سناتی ہے۔

ڈمپل کپاڈیہ نے کہا تھا کمل اداکاری نہیں کرتے، کردار کو جیتے ہیں۔ فوٹو: نیشنل ہیرلڈ

حال ہی میں اسی طرح کی ایک فلم ’سیارہ‘ آئی ہے جس نے کمائی کے بہت سارے ریکارڈ توڑ دیے۔
فلم کے مشہور نقاد امیتا ملک نے اُس وقت لکھا تھا کہ ’کمل ہاسن کا فن زبان سے نہیں بلکہ دل سے مکالمہ کرتا ہے۔‘
اسی کی دہائی میں ہی ان کی فلم ’ساگر‘ (1985) آئی جس میں اداکارہ ڈمپل کپاڈیہ نے سپر ہٹ فلم ‘بوبی‘ کے بعد دوبارہ اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم نے کمل ہاسن کو سلکی رومانی کردار میں پیش کیا۔
ڈمپل کپاڈیا کے ساتھ اُن کی شدت جذبات سے لبریز اور مکمل انہماک والی کیمسٹری نے فلم کو کلاسیکی کا درجہ عطا کیا۔ ایک منظر کی شوٹنگ کے دوران جب ٹوٹا ہوا شیشہ اُن کے ہاتھ کو زخمی کر جاتا ہے تو وہ رکتے نہیں بلکہ پرسکون انداز میں اس سین کو مکمل کرتے ہیں۔
ڈمپل نے بعد میں کہا: ’کمل اداکاری نہیں کرتے، وہ کردار کو جیتے ہیں اس میں سانس لیتے ہیں۔‘
کمل ہاسن کا دوسرا پہلو: ہدایت کاری اور تخلیق
اداکاری سے آگے بڑھ کر کمل ہاسن نے ہدایت کاری میں بھی اپنی موجودگی ثابت کی ہے۔
سن 1997 میں ’چاچی 420‘ ان کے فنی عروج اور گوناگونیت کی علامت ہے۔ اس فلم میں ایک باپ اپنی بیٹی سے قریب رہنے کے لیے عورت کا روپ دھارتا ہے۔
کمل ہاسن نے اس فلم میں میک اپ، آواز، لہجے، اور خواتین و مرد کے جسمانی حرکات پر ایسی باریکی سے کام کیا کہ ناظرین بھول گئے یہ عورت دراصل ایک مرد ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ انگریزی فلم ’مز ڈاؤٹ فائر‘ کی نقل ہے لیکن کمل ہاسن کے مطابق انہون نے اس کے تخلیقی پہلوؤں کا مطالعہ کیا، مگر اُس کی ہو بہو نقل نہیں کی بلکہ انڈین پس منظر میں اپنی شناخت کے ساتھ اسے نیا روپ دیا۔
شمال و جنوب کا سنگم
کمل ہاسن کی ہندی فلمیں صرف فلمیں نہیں تھیں، وہ زبانوں، تہذیبوں، اور احساسات کے سنگم کی علامت تھیں۔

1983 میں سری دیوی کے ساتھ آنے والی فلم ’صدمہ‘ نے اُنہیں کمال ہاسن کو امر کر دیا۔ فوٹو: نیوز بائٹ

انہوں نے شمال و جنوب کے درمیان فنی پل تعمیر کیا۔ چاہے وہ سن 2000 میں آنے والی فلم ’ہے رام’ ہو جس میں فکر کی گہرائی و گیرائی کو پیش کیا گیا یا پھر 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم ’وشوروپم‘ ہو جس میں ویژولس اپنے عروج پر ہیں۔ یہ دونوں فلمیں اگرچہ باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوئیں لیکن یہ فکری سطح پر ان فنی عروج کی مثال ہیں۔
بطور خاص انہوں نے فلم ’ہے رام‘ میں مذہبی جنون اور انسانی ضمیر کی گہرائی کو جس گہرائی سے چھوا ہے اسے عالمی سطح پر بہت پذیرائی ملی۔
میرے چچا کو اس فلم کی خصوصی سکریننگ کے موقعے پر دعوت دی گئی تھی اور انہوں دہلی کے پریا سینما ہال میں اس فلم کو تمام نامی گرامی افراد کے ساتھ دیکھا۔ وہ کہتے ہیں کہ فلم کی سکریننگ کو اچانک روک دینا پڑا کیونکہ ایک خاتون 'گلا کاٹنے' کے ایک منظر کو دیکھ کر بے ہوش ہو گئی تھیں۔
ان کے مطابق یہ انڈیا کی پہلی فلم تھی جس نے ہالی وڈ کی عظیم فلموں کو نہ صرف پیشکش کی سطح پر بلکہ سینیمٹوگرافی کی سطح پر ٹکر دی تھی۔
کہتے ہیں ہندی سینما میں کمل ہاسن کا ہر کام روایت سے بغاوت اور سچ کی تلاش کا استعارہ ہے۔
کمل ہاسن آج بھی ایک فنکار کے طور پر مسلسل نت نئے تجربے کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ایک فلم ’پشپک ومان‘ آئی تھی جو کہ گویا فلموں کے دور میں ایسی فلم تھی جس میں کوئی ڈائیلاگ نہیں تھا۔
ناقدین کے نزدیک وہ صرف اداکار نہیں، بلکہ ایک فکری مکالمہ ہیں۔ اُن کا ہندی فلموں کا سفر یہ بتاتا ہے کہ سنیما صرف تفریح نہیں، بلکہ انسانیت کا آئینہ ہے۔ کمل ہاسن کا کہنا ہے کہ ’زبانیں لباس کی مانند ہیں، میں انہیں کردار کے مطابق اوڑھ لیتا ہوں لیکن جذبہ، وہ تو انسانیت کی مشترک زبان ہے‘ اور یہی اُن کے فن کا خلاصہ کلام ہے۔
وہ ایک ایسے فنکار بن کر چمکے جنہوں نے اداکاری کو عبادت، زبان کو وسیلہ، اور انسانیت کو مقصد بنا لیا۔

 

شیئر: