Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نئے یونیفارم سے بنگلہ دیش پولیس کی خراب تاثر بہتر کرے ہو سکے گی؟

بنگلہ دیش کی پولیس نے نئی وردیاں متعارف کرا دی ہیں، جو اصلاحات کا پیغام دینے اور شدید حد تک خراب عوامی اعتماد کو بحال کرنے کی علامتی کوشش ہ۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ گذشتہ سال کی بڑی عوامی بغاوت کے بعد ہونے والے پہلے انتخابات سے صرف چند ماہ قبل سامنے آیا ہے۔
2024  میں شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد پولیس فورس شدید انتشار کا شکار ہوگئی تھی۔ 2024 کی طلبہ تحریک کے دوران کم از کم 1,400 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی یا معذور ہوئے، جن میں سے بہت سے پولیس فائرنگ کا نشانہ بنے۔
پولیس کے ترجمان شہادت حسین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’بنگلہ دیش پولیس ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ پالیسی سازوں نے تجویز دی ہے کہ… نئی وردی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔‘
اب پولیس اپنی روایتی فیروزی اور نیلی وردیوں کی جگہ آئرن گرے قمیضں اور چاکلیٹ براؤن پتلونیں پہن رہی ہے۔
لیکن آیا نیا رنگ پولیس کی خراب ساکھ کو درست کر پائے گا یا نہیں، اس پر شکوک برقرار ہیں۔
48  سالہ ناظمہ اختر، جن کے 17 سالہ بیٹے گولام نفیز کو بغاوت کے دوران مارا گیا تھا، کہتی ہیں ’جب بھی میں کسی پولیس والے کو دیکھتی ہوں تو میرا دل چاہتا ہے اس کا گوشت نوچ لوں۔ نہیں جانتی کہ میں اپنی یہ نفرت کبھی ختم کر پاؤں گی یا نہیں۔‘
طلبہ تحریک کے دوران ناظمہ اختر کے بیٹے کو گولی ماری گئی تھی اور ہسپتال میں داخلے سے انکار کیا گیا، اور وہ 4 اگست 2024 کو خون زیادہ بہہ جانے سے چل بسا تھا۔
وہ کہتی ہیں ’ایک نئی وردی ان کا رویہ کیسے بدل سکتی ہے؟ میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ انھوں نے اساتذہ کو صرف تنخواہ بڑھانے کے مطالبے پر مارا۔‘

پولیس کے ترجمان شہادت حسین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش پولیس ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

170  ملین آبادی والے ملک میں فروری 2026 میں انتخابات متوقع ہے، جنہیں پُرامن بنانے میں سکیورٹی فورسز کا کردار نہایت اہم ہوگا۔

مشکلات کا شکار

سابق وزیرِاعظم شیخ حسینہ کو پیر کے روز ڈھاکہ کی ایک عدالت نے سزائے موت سنائی، جن پر دیگر الزامات کے ساتھ ساتھ مظاہرین کے خلاف مہلک قوت استعمال کرنے کا حکم دینے کے الزامات بھی شامل تھے۔
شیخ حسینہ واجد نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے فوج کو احتجاج کچلنے کا حکم دیا لیکن فوج نے انکار کر دیا۔
حکام کے مطابق، ان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد کے انتشار میں ملک کے تقریباً 600 میں سے 450 پولیس سٹیشنوں کو توڑ پھوڑ اور نذرِ آتش کیا گیا۔
شہادت حسین کے مطابق ’پچھلی حکومت کے جاتے ہی پولیس اہلکار فوری طور پر سٹیشن چھوڑ گئے، اور اب وہ دوبارہ سنبھلنے کی کوشش میں ہیں۔‘
تحقیقات میں طلبہ تحریک دوران پولیس کی وسیع پیمانے پر بربریت ریکارڈ پر آیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے الزامات میں مطلوب 55 سینیئر افسران انڈیا فرار ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ٹک گلوبل انسٹیٹوٹ کی فوزیہ افروز نے اے ایف پی کو بتایا کہ غیر مسلح نوجوان طالب علم عاشق الرحمان ہریدوی کو پولیس کے دو گروہوں کے درمیان پھنسایا گیا اور انتہائی قریب سے گولی ماری گئی۔
تقریباً 1,500 پولیس اہلکاروں پر اب فوجداری مقدمات جن میں اکثر قتل کے الزام میں چل رہے ہیں جن میں سے درجنوں حراست میں ہیں۔ سابق پولیس سربراہ، جس نے شیخ حسینہ کے خلاف مقدمے میں اعترافِ جرم کیا، کو پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ قتل کے الزامات میں مطلوب 55 سینیئر افسران انڈیا فرار ہو چکے ہیں۔
لیکن موجودہ اہلکار اپنی مایوسی بھی ظاہر کرتے ہیں’44 پولیس اہلکار بھی اس بدامنی میں مارے گئے، پھر بھی عبوری حکومت نے مظاہرین کو قانونی چھوٹ دے دی ہے۔‘
سلطانہ رضیہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے شوہر، پولیس انسپکٹر، کو حسینہ کے فرار کے بعد انتشار میں ہجوم کے ہاتھوں پٹ کر مرتے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں ’انہیں اس طرح نہیں مرنا چاہیے تھا۔‘
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی سے کہا ’پولیس والے بھی انسان ہوتے ہیں۔‘

سیاسی آلہ کار

نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت نے پولیس اصلاحاتی کمیشن تشکیل دیا ہے، مگر پیش رفت سست ہے۔


60  سالہ موٹر رکشہ ڈرائیور عالمگیر حسین کہتے ہیں’ پولیس کو ہمیشہ حکومتوں نے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کی زیادتیوں کے الزامات بدستور برقرار ہیں اور عوامی اعتماد اس قدر گر چکا ہے کہ کئی علاقوں میں ہجوم اب باقاعدگی سے خود ہی انصاف کرتے ہیں، کبھی کبھار مشتبہ افراد کو اغوا کر کے قتل کر دیتے ہیں۔
انسانی حقوق گروپ ’اودھیکار‘ کے مطابق، بغاوت کے بعد کے ایک سال میں تقریباً 300 افراد سیاسی تشدد میں مارے گئے۔
60  سالہ موٹر رکشہ ڈرائیور عالمگیر حسین کہتے ہیں’ پولیس کو ہمیشہ حکومتوں نے سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘
’انہوں نے کبھی قانون کی پروا نہیں کی۔‘

شیئر: