پاکستان میں سرکاری اداروں کو ٹیلی کمیونیکیشن سروسز فراہم کرنے والے ادارے نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن (این ٹی سی) نے سرکاری اہلکاروں کے لیے ایک ’سکیورڈ موبائل فون‘ تیار کر لیا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سائبر حملوں یا ہیکنگ کے خطرات سے محفوظ ہے۔
یہ موبائل فون ایک پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا گیا ہے، جسے آئندہ برس کی پہلی ششماہی میں لانچ کیا جا سکتا ہے۔
این ٹی سی نے اردو نیوز کو تحریری جواب میں بتایا کہ یہ فی الحال ایک پائلٹ پروجیکٹ ہے اور صارفین کی تعداد کو دیکھتے ہوئے اسے سنہ 2026 کی پہلی ششماہی تک باضابطہ طور پر لانچ کیے جانے کا امکان ہے۔ نجی شعبے کی شمولیت کے لیے منصوبے کے نفاذ کے دوران اوپن ٹینڈرنگ کی جائے گی۔
مزید پڑھیں
-
واٹس ایپ ہیکنگ کے واقعات، سائبر فراڈ سے کیسے بچا جائے؟Node ID: 891260
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ این ٹی سی کی جانب سے تیار کیے گئے موبائل فون میں کیا خصوصیات ہیں؟
اردو نیوز کو دستیاب معلومات کے مطابق این ٹی سی کے اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت تیار کیے گئے موبائل فون کے ہارڈویئر اور سافٹ ویئر دونوں کے ڈیزائن اور تیاری پر پاکستان میں کام کیا گیا ہے تاکہ مقامی صلاحیت کو بہتر بنایا جا سکے۔
یہ فون ایک خصوصی آپریٹنگ سسٹم پر چلتا ہے جو انٹرنیٹ سے منسلک نہیں ہوتا، یعنی یہ آف لائن ہے۔
این ٹی سی کے مطابق انٹرنیٹ سے کٹ آف ہونے کی وجہ سے سائبر حملوں، ہیکنگ اور آن لائن جاسوسی جیسے خطرات میں نمایاں کمی ہو جاتی ہے۔
علاوہ ازیں، فون میں استعمال ہونے والی تمام ایپلیکیشنز اور سافٹ ویئر مقامی طور پر تیار کیے گئے ہیں کیونکہ یہ ایک کلوزڈ سسٹم ہے جس کے لیے خصوصی ایپس ڈیزائن کی گئی ہیں تاکہ کنیکٹیویٹی زیادہ بہتر اور محفوظ رہے۔
حکام کے مطابق یہ موبائل پاکستان کے کسی بھی ٹیلی کام آپریٹر کے سِم کارڈ کو سپورٹ کرتا ہے تاہم کالنگ محدود نوعیت کی ہے اور فون صرف اسی نوعیت کے دوسرے محفوظ ہینڈ سیٹ سے رابطہ قائم کر سکتا ہے۔ اس طرح صرف ’سیلولر ٹو ہینڈ سیٹ‘ کمیونیکیشن ممکن ہے۔
اس فون کی ایک خصوصیت یہ بھی بتائی جا رہی ہے کہ اس میں کوئی بیک اپ فیچر موجود نہیں۔ یعنی اگر ڈیوائس چوری ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو اس کا ڈیٹا کسی بیرونی کلاؤڈ سروس سے بحال نہیں کیا جا سکتا۔
این ٹی سی کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اس فون پر ہونے والی گفتگو کو نہ انٹرسیپٹ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مانیٹر۔
این ٹی سی حکام کے مطابق ابتدائی مرحلے میں دس ڈیوائسز تیار کی گئی ہیں۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کے لیے مزید فنڈنگ درکار ہے اور فنڈز کی فراہمی کی صورت میں اس منصوبے کا دائرہ کار مختلف سرکاری محکموں تک پھیلایا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ فون خاص طور پر اس لیے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ حساس حکومتی امور، فیصلوں اور خفیہ معلومات کو مانیٹرنگ اور بیرونی مداخلت سے بچایا جا سکے اور قومی سطح پر سائبر دفاع کو مضبوط بنایا جا سکے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سرکاری افسروں کی کمیونیکیشن کو محفوظ بنانے کے لیے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے بیپ نامی ایک ایپ تیار کی تھی، جس کا مقصد اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن کے ذریعے محفوظ رابطہ فراہم کرنا تھا۔ تاہم یہ ایپ فی الحال مکمل طور پر سرکاری ملازمین کے لیے جاری اور فعال نہیں ہو سکی اور اس کی انکرپشن، فائر وال اور ہوسٹنگ سکیورٹی کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پاکستان مکمل طور پر ’سکیورڈ‘ موبائل فون بنا سکتا ہے؟
سائبر سکیورٹی اور آئی ٹی ماہرین سے بھی رابطہ قائم کیا کہ کیا پاکستان میں مکمل طور پر مقامی سطح پر موبائل فون تیار کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور اگر ایسا فون تیار کر بھی لیا جائے تو کیا اس کا استعمال مؤثر اور قابلِ عمل ہو سکے گا؟
اسلام آباد میں مقیم معروف آئی ٹی ماہر روحان ذکی این ٹی سی کے مکمل سکیورڈ موبائل ڈیوائس تیار کرنے کے دعوے کو قابلِ قبول خیال نہیں کرتے۔
وہ کہتے ہیں کہ ادارے کے پاس ایسی اعلیٰ سطح کی ڈیوائس تیار کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر ایسا موبائل تیار ہو جائے اور اس کا کامیابی سے نفاذ بھی ہو جائے تو یہ خوش آئند پیش رفت ہو گی۔ پاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں اس طرح کی جدت کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کا ڈیٹا عالمی کمپنیوں کی رسائی سے محفوظ رہ سکے، لیکن اس کے لیے حکومت کو آئی ٹی کے فروغ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔‘
ماہرین کے مطابق فی الحال پاکستان میں موبائل فون کا مکمل ہارڈویئر مقامی طور پر تیار کرنا ممکن نہیں، خصوصاً چِپس، پروسیسرز اور جدید سیمی کنڈکٹر کمپوننٹس، کیونکہ ان کی تیاری کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور نہایت جدید ٹیکنالوجی درکار ہوتی ہے جو پاکستان میں دستیاب نہیں۔

اُن کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف موبائل فونز اسمبل کیے جاتے ہیں، جبکہ چِپ سیٹس، ماڈیولز اور مین بورڈز بیرونِ ملک سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ اسی لیے این ٹی سی یا دیگر مقامی اداروں کے ’مکمل طور پر تیار کردہ‘ فون دراصل مقامی اسمبلی اور سافٹ ویئر انجینئرنگ پر مبنی ہوتے ہیں، مکمل مقامی ہارڈویئر مینوفیکچرنگ پر نہیں۔
کیا ایسا موبائل مکمل طور پر محفوظ ہو سکتا ہے؟
این ٹی سی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے سائبر سکیورٹی ماہر محمد اسد الرحمان کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کوئی بھی موبائل فون مکمل طور پر سائبر حملوں سے بچاؤ فراہم کر سکتا ہے۔
وہ مثال دیتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے آئی فون کے ایک جدید ماڈل کو بھی انتہائی محفوظ قرار دیا گیا تھا لیکن بعد میں وہ بھی سائبر حملوں کا نشانہ بنا۔ اسی طرح دنیا کے کئی ممالک میں انتہائی محفوظ تصور کیے جانے والے آلات بھی حملوں کا شکار ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ ’انڈیا میں ملٹری اداروں میں ایک مقامی آپریٹنگ سسٹم استعمال ہوتا ہے، لیکن وہاں بھی سکیورٹی بائی پاس کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی چاہے کتنی ہی محفوظ کیوں نہ ہو، اگر استعمال کرنے والا شخص غلطی کرے تو ہیکنگ کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ ماضی میں تیار کی گئی بیپ ایپ پر سرِدست مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ کیا ہے اور کیا اس موبائل فون کا نفاذ ممکن ہو سکے گا، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بعض اوقات سکیورٹی وجوہات کی بناء پر حکومت یہ ظاہر نہیں کرتی کہ کون سی ایپ یا ڈیوائس استعمال کی جا رہی ہے۔ اس لیے نفاذ کے بارے میں کوئی حتمی رائے دینا ممکن نہیں، کیونکہ کئی سرکاری سکیورٹی ٹولز کو منظرِ عام پر لانا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔‘












