Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’دماغ سکڑتے اور پیٹ بڑھتے جا رہے ہیں‘

ذہنی نشوونما کے لیے ماحول بھی تعمیراتی ہونا چاہیے۔ فائل فوٹو: پکسابے
کتابیں علم کے حصول کے لیے نہیں بلکہ نمبروں کے حصول کے لیے رہ گئی ہیں۔ ہمیں کتابوں سے محبت نہیں سکھائی گئی، ہمیں نمبروں سے محبت سکھائی گئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور کتابیں پڑھنے کا مقصد صرف ایک اچھی نوکری حاصل کرنا رہ گیا ہے۔
جو کتابیں سلیبس کا حصہ ہیں وہی پڑھ لی جائیں تو بڑی بات ہے۔ ہر انسان اپنے ماحول کو دیکھتا اور سیکھتا ہے۔ جب ہم نے اپنے اردگرد کتابیں صرف امتحان پاس کرنے کے لیے دیکھی ہوں گی تو ہمیں کتابوں سے محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ جبھی اعلیٰ ڈگریاں لینے کے باوجود علم کا فقدان ہے اور ڈگریوں کی بھرمار ہے۔ ہم علم نہیں ڈگریاں بیچ رہے ہیں۔

ذہنی نشوونما کے لیے ماحول بھی تعمیراتی ہونا چاہیے۔ فائل فوٹو: پکسابے

لوگ علم کی نہیں اچھے مستقبل کی قیمت ادا کرتے ہیں کہ اس قیمت کا بدلہ مستقبل میں اچھی نوکری کی صورت میں ملے گا۔
جہاں لائبریریوں کے بجائے شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس اور کیفیز کی تعداد زیادہ ہو وہاں وہی چیزیں فروغ پائیں گی جنہیں فوقیت دی جائے۔ اس لیے دماغ سکڑتے جا رہے ہیں اور پیٹ بھرتے جا رہے ہیں۔

 

علم کی قدر وقیمت کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آپ نے زندگی کا ایک لمبہ عرصہ پڑھائی کے نام وقف کیا ہو اور بالآخر ایک دن احساس ہو کہ آپ علم سے محروم ہیں، آپ تو محض پاس ہونے کے لیے پڑھ رہے تھے جس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔
اگر پیسے کمانا صرف تعلیم سے ہی ممکن ہوتا تو ان پڑھ بزنس مین نہ ہوتے اور ڈگریوں والے ان کے ملازم نہ ہوتے۔ مہارت اور ذہن کے استعمال سے ہی لوگ کاروبار بنائے اور سنبھالے ہوئے ہیں۔
اگر صدیوں سے اب  تک تعلیم کی صورت حال وہی ہے تو پھر نصاب میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ نصاب میں ایسی چیزیں شامل کی جائیں جو بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں۔

ان پڑھ بزنس مین نہ ہوتے اور ڈگریوں والے ان کے ملازم نہ ہوتے۔ فائل فوٹو: پکسابے

آج ہمیں کتابوں کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ نمبروں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ اپنی شخصیت کو ابھارنے کے لیے۔ کسی عظیم شخص نے کہا تھا کتابیں بُرے وقت کی ساتھی ہیں جو آپ کا اس وقت بھی ساتھ دیتی ہیں جب آپ بالکل تنہا ہوں۔ کتابوں پر کی گئی انویسٹمنٹ آپ کی زندگی کی بہترین انویسٹمنٹ ہے۔
ذہنی نشوونما کے لیے ماحول بھی تعمیراتی ہونا چاہیے جس میں رہ کر صرف جسم نہیں روح بھی نشوونما پائے۔
اگر سڑکوں کی کنسٹرکشن کے علاوہ ذہنی کنسٹرکشن کے لیے تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اس میں بہتری کی جائے تو ممکن ہے ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہو۔ تعلیم کو اتنا مشکل نہ بنایا جائے کہ انسان دیکھ کر ہی ہمت ہار جائے بلکہ تعلیم کی راہ میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: