Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہاراشٹر میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

الیکشن کے بعد بی جے پی اور شیوسینا میں تلخیاں بڑھتی رہیں اور کھچڑیاں پکتی رہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر ان دنوں سیاسی سرگرمیوں کا اکھاڑہ بنی ہوئی ہے۔ آئے روز نئی باتیں سامنے آتی ہیں جو پہلے سے زیادہ الجھی ہوئی ہوتی ہیں۔
گذشتہ ماہ مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سامنے آئے جس میں کسی بھی پارٹی کو سادہ اکثریت نہ مل سکی۔ ہر چند کہ بی جے پی اور شیوسینا نے اتحادیوں کے طور پر انتخابات میں شرکت کی تھی لیکن نتائج آتے گئے اور ان کے رشتے تلخ ہوتے گئے۔
بی جے پی کو امید تھی کہ وہ تنہا ہی سادہ اکثریت حاصل کر لے گی اور پھر وہ شیو سینا کی ریاست میں اہمیت کو کم کر دے گی یا ختم ہی کر دے گی۔ لیکن نتیجہ ان کی امیدوں کے بالکل برعکس آیا اور شیوسینا ان کے لیے ناگزیر ہو گئی۔
اب جب شوسینا ناگزیر ہو گئی تو اس پارٹی کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ انھوں نے ففٹی ففٹی کی بنیاد پر اتحاد کیا تھا اور یہ کہ ڈھائی سال تک ان کی پارٹی کا بھی وزیر اعلیٰ رہے گا۔
بی جے پی جو پہلے سے ہی تلخ گھونٹ پی رہی تھی اس نے شیوسینا کی بات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ وزیر اعلی تو بی جے پی کا ہی ہوگا اور وہ بھی پورے پانچ سال کے لیے۔ البتہ وہ اس بات پر راضی ہو گئی کہ نائب وزیر اعلی کا عہدہ وہ شیوسینا کو دے سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اگر شیوسینا کسی اہم وزارت پر بھی مان جاتی تو بی جے پی کو اسے یہ وزارت دینے میں زیادہ قباحت نہ ہوتی۔ لیکن تلخیاں بڑھتی رہیں اور کھچڑیاں پکتی رہیں۔

مہاراشٹر اتنا الجھا ہوا کیوں ہے؟

مبصرین کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر انڈیا کی امیر ترین ریاست ہے اور اس کا دارالحکومت ممبئی انڈیا کا معاشی دارالحکومت ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی پارٹی کے لیے انتہائی اہم ہے۔ وہاں کی مقامی پارٹی شیوسینا ہے جس کی بنیاد سخت گیر ہندو نظریات کے حامل بالا صاحب ٹھاکرے نے رکھی تھی۔

شیوسینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ انھوں نے ففٹی ففٹی کی بنیاد پر اتحاد کیا تھا (فوٹو: اے این آئی)

ان کے بعد یہ پارٹی ٹوٹ گئی۔ ان کے بھتیجے نے ایم این ایس نامی پارٹی بنا لی جبکہ شیوسینا ٹھاکرے کے بیٹے ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میں آ گئی۔
دوسری اہم پارٹی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ہے جس کا قیام کانگریس کے اہم لیڈر شرد پوار نے کانگریس سے علیحدگی کے بعد کیا تھا۔ وہ مہاراشٹر کے مقامی ہیں اور انڈیا کی سیاست میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
باقی دو پارٹیاں ملکی سطح کی ہیں جن میں ایک مرکز میں برسراقتدار بی جے پی ہے تو دوسری انڈیا کی قدیم ترین پارٹی کانگریس ہے۔
حالیہ اسمبلی انتخابات میں نتائج کچھ ایسے آئے کہ ان چاروں پارٹیوں کی اہمیت نظر آنے لگی۔ بی جے پی نے سب سے زیادہ 105 سیٹیں حاصل کی ہیں ہیں جبکہ شیوسینا 56 کے ساتھ دوسرے این سی پی 54 سیٹوں کے ساتھ تیسرے جبکہ کانگریس 44 سیٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔
سادہ اکثریت کے لیے 288 ارکان والی اسمبلی میں 145 ارکان کی سپورٹ چاہیے۔
دریں اثنا شیوسینا نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ مرکز میں بھی بی جے پی کی اتحادی جماعت تھی اور اس کے 22 ارکان پارلیمان میں ہیں۔ اس پارٹی نے اپنے رکن کو اہم وزارت سے مستعفی ہونے کے لیے کہہ دیا۔

مہاراشٹر میں  بی جے پی نے سب سے زیادہ 105 سیٹیں حاصل کی ہیں (فوٹو: روئٹرز) 

این سی پی رہنما شرد پوار نے شیوسینا کے ساتھ اور کانگریس کے حمایت کی یقین دہانی کے بعد حکومت سازی کا اعلان کیا اور کہا کہ مہاراشٹر کی نئی حکومت کی باگ ڈور شیوسینا رہنما ادھو ٹھاکرے کے ہاتھوں میں ہوگی اور وہی مہاراشٹر کے نئے وزیر اعلی بنیں گے۔
یہ اعلان جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کو ہوا اور رات بھر میں یوں لگا کہ تختہ پلٹ گیا اور شاید یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر 'مہاراشٹرکو' بھی ٹرینڈ کرتا نظر آیا۔
راتوں رات گورنر نے صدر کو خط لکھا اور صدر نے وزیراعظم کو بتایا اور بغیر کابینہ کی میٹنگ کے ریاست سے صدر راج ہٹا لیا گیا۔
صبح پونے چھ بجے صدر راج ہٹایا گیا اور کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 356 میں حاصل خصوصی حقوق کا استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
صدر راج کے ہٹتے ہی صبح صبح تقریبا سوا آٹھ بجے بی جے پی رہنما دیویندر پھڈنویس نے وزیر اعلی کا حلف اُٹھا اور این سی پی کے منتخب اسمبلی اراکین کے رہنما اور شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے نائب وزیراعلی کا حلف اُٹھا لیا۔
کانگریس، شیو سینا اور این سی پی نے اس کے خلاف انڈیا کی سپریم کورٹ میں اپیل داخل کر دی جس پر اتوار کو سماعت ہوئی لیکن یہ پیر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی اور بی جے پی اور این سی پی کو نوٹس جاری  کیا گیا کہ وہ پیر ساڑھے دس بجے تک ضروری دستاویزات داخل کریں۔

شیوسینا اور بی جے پی کسی نیتجے پر نہیں پہنچ سکیں (فوٹو: ہندوستان ٹائمز)

پیر کو سپریم کورٹ نے سماعت کی لیکن فیصلہ منگل کو ساڑھے دس بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔
بی جے پی یہ چاہ رہی ہے کہ اسے وقت مل جائے جبکہ حزب اختلاف کے اتحاد کو فلور ٹیسٹ کی جلدی ہے۔ وہ اسمبلی کے ایوان میں جلد از جلد اکثریت ثابت کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
بی جے پی نے اس سے قبل کرناٹک میں جس طرح اقتدار حاصل کیا اس سے تینوں پارٹیاں خوفزدہ ہیں۔ کیونکہ ایم ایل ایز کی خرید و فروخت کا خدشہ ہے۔ حکومت سازی میں جتنی تاخیر ہوگی بی جے پی کی اکثریت ثابت کرنے کا امکان قوی ہوتا جائے گا اور شیو سینا کے حکومت سازی کے خواب بکھرتے جائيں گے۔
مبصرین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کہیں شرد پوار تو سارا کھیل نہیں کھیل رہے ہیں۔
انھوں نے اپنے بھتیجے کو پارٹی سے اب تک نہیں نکالا ہے۔ صرف انھیں منتخب اسمبلی اراکین کے رہنما کے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے بھتیجے اجیت پوار این سی پی کے تمام منتخب اراکین کو اپنے ساتھ لے جائیں اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو پھر وزیر اعلی دیویندر پھڈنویس کے ساتھ ان کا مستقبل بھی تاریک ہوتا نظر آ رہا ہے۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں

شیئر: