Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی ایکٹ فوری منظور کرنے والی پارلیمنٹ میں 84 بل زیر التوا

موجودہ پارلیمنٹ کے 17 ماہ میں قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے 38 بل پیش کیے گئے۔ (فوٹو:اے پی پی)
پاکستان کی پارلیمان نے آرمی چیف اور دیگر سروسز چیفس کی مدت ملازمت، توسیع اور ریٹائرمنٹ سے متعلق تین بل تومحض تین دن میں ہی منظور کرلیے ہیں لیکن اسی پارلیمنٹ میں 84 دیگر بل منظوری کے منتظر ہیں۔
موجودہ پارلیمنٹ کے 17 ماہ میں قومی اسمبلی میں حکومت کی جانب سے 38 بل پیش کیے گئے جن میں سے صرف 17 پاس ہوئے اور دو فنانس بلوں سمیت محض 8 ہی ایکٹ آف پارلیمنٹ بن سکے یعنی ان میں سے چھ کو پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے منظور کیا۔
اس دوران ارکان کی جانب سے 63 نجی بل قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے جن میں سے ایک بھی پاس نہ ہوسکا۔ ان میں سے متعدد  کا تعلق عام شہریوں کی زندگیوں سے ہے  جن کی منظوری کی صورت میں ان کو روز مرہ کے معاملات میں خاصی سہولت ہو گی۔ 
ایک طویل عرصے سے زیر التوا بلوں میں سر فہرست ’زینب الرٹ‘ بل ہے جو قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی بچی زینب کے نام پر بچوں کے تحفظ کے لیے اپریل 2019 میں پیش کیا گیا تھا۔ اس وقت پارلیمان نے اس بل کو اہم قرار دیا تھا۔ لیکن یہ  اب بھی  پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں زیر بحث ہے، اور اس کی منظوری کا فی الحال کوئی امکان نہیں ہے۔
اسی طرح جائیداد میں خواتین کے حصہ کے تحفظ اور اس حوالے سے کسی بھی تنازعے کے تیز ترین حل، وفاقی دارالحکومت کی خواتین کو قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کے لیے خواتین کی مخصوص نشست کے حوالے سے آئینی ترمیم، اور’وسل بلور ایکٹ‘ جس کے تحت کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو پکڑی گئی رقم میں سے حصہ دینے کی تجویز ہے، بھی ابھی تک پارلیمنٹ سے منظوری کے منتظر ہیں۔
اس حوالے سے  اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کو بلوں کی منظوری میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ لیکن مسلح افواج کے حوالے سے پیش ہونے والی ترامیم کے لیے حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں تعاون مثالی نظر آیا۔
اب تک ایکٹ آف پارلیمنٹ بننے والے قوانین میں سے پہلے سال صرف ایک فنانس بل اور دوسرا بچوں میں تمباکو نوشی کی ممانعت سے متعلق بل تھا۔ دوسرے سال میں بھی سینما میں تمباکو نوشی کی ممانعت، الیکشن کمیشن سے متعلق دو ترمیمی بل اور دو فنانس بل شامل ہیں۔

اپوزیشن اور حکومت دونوں ایک دوسرے کو بلوں کی منظوری میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ (فوٹو:اے پی پی)

ایکٹ آف پارلیمنٹ بننے والے بلوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو منی لانڈرنگ، لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی، حکومتی اصلاحاتی پالیسی اور حکومتی معاشی ایجنڈے کی تکمیل سے متعلق ہو۔
موجودہ حکومت نے 13 اگست 2018 کو شروع ہونے والے پہلے پارلیمانی سال میں 19 بل پیش کیے۔ ان میں دو فنانس بل کے علاوہ آٹھ منظور ہو سکے۔ دوسرے پارلیمانی سال میں اب تک حکومت نے 19 بل پیش کیے ہیں جن میں سات بل منظور کیے گئے ہیں۔ ان سات میں سے تین دن منگل سات جنوری کو 12 منٹ کے مختصر دورانیے میں پاس کرائے گئے ہیں جبکہ ایک ’بیرونی ممالک کے ساتھ قانونی معاونت کا بل‘ جو کئی ماہ پہلے پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا گذشتہ روز پاس کیا گیا۔
حکومت کا یہ گلہ رہا ہے کہ قانون سازی کے لیے انہیں پارلیمان میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں جب کہ اپوزیشن ان سے تعاون نہیں کرتی۔
اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حکومت نے اب تک صدارتی آرڈینینسز پر انحصار کیا ہے۔ حکومت نے مجموعی طور پر جاری کیے گئے آرڈینینسز میں سے 27 پارلیمان میں پیش کیے ہیں جن میں سے 16 قومی اسمبلی میں جبکہ 11 سینیٹ میں پیش کیے گئے ہیں جبکہ متعدد آرڈینینس ابھی تک ایوان میں پیش کیے جانا باقی ہیں۔ 
قومی اسمبلی نے اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل اور فارن ایکسچینج ریگولیشنز ترمیمی بل سمیت مجموعی طور پر 17 بل پاس تو کر دیے لیکن حکومت ان میں سے متعدد  بل سینیٹ سے منظور کروانے میں تاحال ناکام ہے۔
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے تین جنوری کو پیش کیے گیے تینوں بل حکومت ایک ہی دن میں منظور کروانا چاہتی تھی لیکن تکنیکی وجوہات کی بنیاد پر اس میں مزید دو دن لگ گئے اور سات جنوری کو قومی اسمبلی نے ان بلوں کی بلا تاخیر منظوری دے دی۔ قیاس ہے کہ اب سینیٹ بھی محض دو دنوں میں ان بلوں کی منظوری دے دے گی۔

شیئر: