Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیروت دھماکوں میں لاپتہ افراد کی ’زندگی کا کوئی ثبوت نہیں‘

بیروت دھماکوں میں چھ ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے (فوٹو اے ایف پی)
بیروت دھماکوں کے بعد جائے حادثہ پر امدادی کاموں میں مصروف افراد کا کہنا ہے کہ گرنے والی عمارتوں میں اب زندگی کی کوئی علامت باقی نہیں ہے۔ اس پیشرفت کے بعد ملبے کے نیچے سینسر کی مدد سے پائی گئی زندہ افراد کی موجودگی کی امید دم توڑ گئی ہے۔
بیروت کی بندگارہ پر اوائل اگست میں ہونے والے دھماکوں سے کم از کم 191 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ زمانہ امن میں لبنان میں ہونے والا سب سے بڑا حادثہ بن چکا ہے۔ واقعے کو ایک ماہ گزرنے کے بعد اب بھی سات افراد لاپتہ ہیں۔
بدھ کی رات سونگھ کر نشاندہی کرنے والے ایک کتے نے ملبے کے نیچے کسی کی خوشبو پائی تھی۔ ہائی ٹیک سینسرز سے بھی تصدیق ہوئی کہ عمارتی ملبے کے نیچے دل کی دھڑکن موجود ہے، جس کے بعد امدادی ٹیموں نے تلاش کا عمل شروع کیا تھا۔
تین روز کے دوران بھاری مقدار میں ملبہ ہٹانے کے باوجود چلی سے تعلق رکھنے والے ریسکیو ورک کے ماہر فرانسسکو لرمانڈا نے کہا کہ ملبے کے نیچے اب زندگی کی کوئی علامت باقی نہیں ہے۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تکنیکی بنیادوں پر آج ہم یہ کہہ سکتے ہیں گری ہوئی عمارت کے اندر زندگی کی کوئی نشانی باقی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دو خواتین امدادی کارکن ہفتے کو ایک سرنگ کے ذریعے وہاں پہنچیں جہاں کسی کی زندہ موجودگی کا امکان تھا لیکن کچھ نہیں ملا۔
لرمانڈا کے مطابق علاقے کو محفوظ بنانے اور کسی متاثرہ فرد کے ملبے تلے موجود نہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے کام جاری رہے گا۔
انجینئر ریاض اسد کے مطابق جائے حادثہ پر کام کرنے والوں نے ملبے کی دو تہیں ہٹائیں جس کے بعد وہ سیڑھیوں تک پہنچے، اس مقام پر ہمیں کوئی نہیں ملا۔

بیروت دھماکوں سے 600 سے زائد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے (فوٹو ٹوئٹر)

قبل ازیں سول ڈیفنس ایجنسی کے آپریشن ڈائریکٹر جورج ابو موسی نے صبح کے وقت بتایا تھا کہ کسی کی زندہ موجودگی کے امکانات ’بہت کم‘ ہیں۔
سول ڈیفنس افسر قاسم خاطر کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم ہمت ہارنے کو تیار نہیں ہے۔ ’ہم اس وقت تک جگہ نہیں چھوڑیں گے جب تک ملبے کا مکمل جائزہ نہیں لے لیتے‘۔
بچوں کے ماہر والٹر مونوز نے صبح کے وقت دی گئی معلومات میں بتایا تھا کہ کسی کے زندہ بچ سکنے کے امکانات ’دو فیصد‘ ہیں۔
لبنانی حکام نے ملبے کے نیچے اتنے طویل وقت کے بعد کسی کے زندہ رہنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر قرار دیے ہیں۔ اس کے باوجود کئی دہائیوں سے معاشی ابتری اور اب کورونا وائرس کی مشکل سے نبردآزما لبنان میں ملبے تلے دبی زندگی سے متعلق کسی معجزے کی توقع کی جا رہی تھی۔

ناکافی مقامی سہولیات کی وجہ سے غیرملکی ماہرین امدادی کام میں معاونت کر رہے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

سلیم مراد نامی 32 سالہ فلم میکر کا کہنا تھا کہ ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں معجزے کا اتنا زیادہ منتظر ہوں۔ اے اللہ بیروت کو وہ معجزہ عطا کریں جس کی اسے ضرورت ہے‘۔
لبنان میں امدادی کاموں کے لیے مطلوب جدید آلات اور مہارتیں نہ ہونے کی وجہ سے چلی، فرانس اور امریکہ کے ماہرین اس کام کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر متعدد لبنانی شہریوں نے چلی کے امدادی کارکنوں کو ہیرو قرار دے کر ان کی تعریف کی ہے۔ لبنان میں جمعہ کو مرنے والوں کے احترام میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی تھی۔

شیئر: