Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترک جوڑے کی خودکشی سے ملک میں غربت کے خدشات کا اظہار

بے روزگاری انشورنس امدادی سکیم میں صرف رجسٹرڈ ملازمین شامل ہیں۔(فوٹو اے ایف پی)
استنبول میں کورونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا  شکار جوڑے کی خود کشی کے واقعے نے ترکی میں بڑھتی ہوئی غربت سے متعلق خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق کورونا وائرس کے بعد لگنے والی پابندیوں کے باعث ترکی میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس کے انسداد کی سرکاری پالیسیوں کے نتیجے میں یہ جوڑا مالی مشکلات کا شکار تھا۔

امسال ترکی میں غریب افراد کی تعداد20 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

 مذکورہ جوڑے نے 9 فروری کو اپنے ایک سالہ بچے کو پڑوسی کے حوالے کرنے کے بعد خودکشی کر لی تھی۔
اس جوڑے کی خود کشی والے دن ہی ترکی نے  متنازعہ طور پر 2023 تک چاند پر اترنے کے لیے نیا خلائی پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
استنبول میں ریپبلکن پیپلز پارٹی کے صدر کنعان کافتانسی اوغلو نے کہا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ملک میں غربت اور بھوک نہیں ہے وہ بتائیں کہ کیا ہمیں اس چھوٹے بچے یا ان نوجوانوں کے لیے پریشان نہیں ہونا چاہئے جو یکایک دنیا سے چلے گئے۔
پبلک سروسز ایمپلائز یونین کی حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 10 میں سے7 ترک افراد کا اچھا خاصا ذاتی قرضہ ہے، خواتین میں غربت کی شرح زیادہ ہے اور ہردو میں سے ایک بچے کو غربت کی زندگی کا سامنا ہے۔

لوگوں کی ایک تہائی تعداد کو کھانا خریدنے میں دشواری کا سامنا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

کہا جاتا ہے کہ ترکی میں81 ملین پر مشتمل آبادی کا پانچواں حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔
یوروسٹاٹ کے اعداد و شمار نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ترکی کے سب سے زیادہ  دولت مند  افراد نے 2019 میں اوسط اجرت سے آٹھ گنا سے زیادہ کمایا تھا۔
ترکی کے ماہرین تعلیم نے حالیہ تحقیق میں بتایا ہے کہ امسال ترکی میں غریب افراد کی تعداد دگنی ہوکر 20 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔
عالمی بینک کی ایک اور رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی لہر مزید ایک لاکھ 60 ہزار افرادکو غربت کی لکیر سے نیچے جانے پر مجبور کر سکتی ہے۔

81 ملین پر آبادی کا پانچواں حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔(فوٹو عرب نیوز)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں غریب اور کمزور افراد جو بہت زیادہ معاشی عدم تحفظ کے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں وہ آمدنی کی نچلی سطح کے 40 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی معاشی مشکلات کے خاتمے کے لیے بے روزگاری انشورنس فوائد جیسی حکومتی کوششیں ملک میں بڑھتی ہوئی غربت کے تناسب کے مطابق نہیں کیونکہ امدادی سکیم میں صرف رجسٹرڈ ملازمین شامل ہیں جبکہ لیبر مارکیٹ کے ایک تہائی غیر روایتی کارکنوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔
ماہر معاشیات اور بریک اوے فیوچر پارٹی کے بانی رکن  سرکان اوزکن نے کہا کہ اگرچہ ماضی میں ترکی کبھی کامل جمہوریت نہیں رہا اور نہ ہی یہاں ’قانون کی حکمرانی‘ کو روبہ عمل لایا گیا لیکن ملک میں معاشی حرکیات پر چیک اینڈ بیلنس کے حالیہ بگاڑ اور غلط معاشی پالیسیوں کے فوری اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اوزکین نے کہا ہےکہ عام ملازمتوں میں خدمات انجام دینے کے باوجود معاشرے کا ایک اہم حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارتا ہے۔
اعداد وشمار کی سرکاری ایجنسی کے آمدنی سے متعلق تازہ ترین سروے میں بتایاگیا ہے کہ ملکی آبادی کا ایک تہائی حصہ باقاعدگی سے گوشت خریدنے کا متحمل نہیں ہوسکتا جبکہ 37 فیصد افراد نے کہا کہ وہ سرد موسم میں اپنے گھروں کو گرم رکھنے کے قابل نہیں۔
رواں سال کے دوران لوگوں کو ملازمتوں سے نکالنے پر عائد حکومتی پابندی ختم ہونے کی توقع ہے جو کورونا کی عالمی وبا سے ہونے والے معاشی نقصان میں سرفہرست ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ریستوران مالکان اور عملے کے ارکان نے بڑی تعداد میں ملک بھر میں مظاہرے کئے اور اپنی مالی جدوجہد کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
بہشیر یونیورسٹی کے سروے میں انکشاف کیاگیاہے کہ کورونا  وبا کے دوران ترکی کے ایک تہائی ملازمین کی تنخواہ میں کمی ہوئی۔ اسی سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ترکی میں دہرے ہندسوں کو پہنچنے والی افراط زر کی شرح کے باعث لوگوں کی ایک تہائی تعداد کو کھانا خریدنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نوجوانوں میں روزگار کے اعداد وشمار بھی بیروزگاری کی40 فیصد شرح ظاہر کر رہے ہیں۔
 

شیئر: