Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزل گائیکی کا دور ختم، نہ کوئی گاتا ہے نہ سیکھتا: طاہرہ سید

گلوکارہ طاہرہ سید کہتی ہیں کہ جو کمپنیاں میوزک بنا رہی ہیں وہ اچھا کام کر رہی ہیں کیونکہ اس سے نئے گلوکاروں کو نہ صرف آگے آنے کا موقع میسر آ رہا ہے بلکہ پرانے گانوں کو ری مکس کرنے کی وجہ سے انہیں ایک بار پھر سے سنا جا رہا ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے طاہرہ سید نے کہا کہ ’مجھ سے کوک سٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے کبھی کوئی رابطہ نہیں کیا گیا، نیا میوزک کچھ تو بہت اچھا بن رہا ہے اور کچھ بہت ہی برا, جو اچھا ہے سن لیتی ہوں, جو اچھا نہیں اسے نہیں سنتی۔
انہوں نے کہا کہ مہدی حسن، اقبال بانو، غلام علی اور فریدہ خانم کے بعد غزل گائیکی کا دور ختم ہو گیا۔ سننے اور سنانے والے نہ صرف کم ہیں بلکہ ایسا کوئی چینل نہیں ہے جہاں سنجیدہ میوزک سننے کو ملے، غزل گانا یا سیکھنا مشکل کام نہیں ہے بس اب اس کی ڈیمانڈ نہیں رہی اس لیے نہ کوئی گاتا ہے نہ سیکھتا۔
طاہرہ سید کے مطابق آج کل کے گانے دو دن کے بعد ہی بھول جاتے ہیں لیکن50 برس پہلے کے مہدی حسن اور فریدہ خانم جیسے گلوکاروں کا گایا ہوا آج بھی سنیں تو اچھا لگتا ہے۔
طاہرہ سید نے کہا کہ ’مجھے گلوکاری کا شوق نہیں تھا حالانکہ میری والدہ گلوکارہ تھیں۔ امی نے جب مجھے میوزک کا استاد رکھ دیا تو کلاسیکل کے ساتھ غزل اور گیت سیکھا، جب پی ٹی وی پر گانا شروع کیا تو اس وقت میری عمر 14 برس تھی۔ پی ٹی وی کے سنہرے دور کی اچھی اور خوبصورت یادیں آج بھی دل میں سمیٹے ہوئے ہوں۔ مجھے یاد ہے کہ وہاں ریکارڈنگ کے لیے جاتی تو گھنٹوں لگ جاتے، اس چیز سے اکتا بھی جاتی تھی لیکن لطف اندوز ہوتی تھی۔ وہاں خواجہ نجم الحسن اور فرخ بشیر ہوتے تھے جن کے پروگراموں میں اکثر شرکت کرتی تھی، اس دور میں گلوکار کیا آرٹسٹ کیا ہر کوئی سلیبرٹی تھا۔
طاہرہ سید کہتی ہیں کہ پہلی بار جب کیمرے کے سامنے گئی تو پتہ نہیں تھا کہ کہاں سے کیمرہ آئے گا، کس طرف دیکھنا ہے لیکن آہستہ آہستہ یہ چیز بھی سمجھ آ گئی۔
طاہرہ سید کا ماننا ہے کہ ان کی والدہ ملکہ پکھراج کی وجہ سے لوگوں نے انہیں سنجیدہ لیا اور انہیں شہرت بھی ملی۔ وہ ان کے مقابلے میں تو نہیں آ سکتی تھیں لیکن ان سے جو سیکھا اس کا مظاہرہ لوگوں کے سامنے کر کے داد ضرور سمیٹی۔
طاہرہ سید نے کہا کہ ’میں اپنی آواز کو فلموں کے لیے موزوں نہیں سمجھتی تھی اس لیے چار فلموں کے لیے گا کر چھوڑ دیا۔ فلموں کے لیے پہلا گیت ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ گایا تو اس وقت میری عمر محض 17 برس تھی۔ چونکہ فلموں کی گائیکی میرا مزاج نہیں تھا اس لیے مزید نہیں گایا۔

طاہرہ سید کے مطابق ’میرے اعصاب بہت مضبوط ہیں مجھے نہیں یاد کہ کسی چیز نے مجھے ڈاﺅن کیا ہو‘ (فوٹو: فیس بک طاہرہ سید)

ان کا کہنا ہے کہ ’گلوکاروں کو آج سے 50 برس پہلے معاوضہ اتنا اچھا نہیں ملتا تھا آج اگر کوئی گلوکار اپنی گائیکی کے لیے زیادہ معاوضہ طلب کرتا ہے اور اسے ملتا بھی ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ اس چیز پر اعتراض کرنا مناسب نہیں سمجھتی۔‘
طاہرہ سید کے مطابق وہ فل ٹائم گلوکارہ نہیں تھیں۔ جتنا کام ملتا وہ کر کے گھر آ جاتیں اور اپنے بچوں کو وقت دیتیں۔ اگر کہیں باہر کے ملک میں پرفارم کرنے جانا ہوتا تو اپنے بچوں کو بہن بھائی کے گھر چھوڑ جایا کرتی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہر عورت کی زندگی میں رومانس خاص اہمیت رکھتا ہے جیسے اب مجھے اگر کوئی پھول دے یا کارڈ لکھ کر بھیجے تو بہت اچھا لگتا ہے، کوئی میری تعریف کرے یا باغ کی سیر کے لیے جاﺅں یا کسی سمندر پر جاﺅں تو بہت اچھا لگتا ہے، یہ چیزیں جوانی کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔ مجھے آج بھی شوق ہے خوبصورت مقام پر جانے کا، پھول دیکھنے کا، زندگی کو انجوائے کرنے کا۔ زندگی ایک بار ملی ہے لہذا اس کو خوبصورت طریقے سے گزارنا چاہیے۔
طاہرہ سید کہتی ہیں کہ ’میری والدہ سخت مزاج تھیں۔ مجھے ان سے ڈانٹ پڑ جاتی تھی لیکن میں بالکل بھی سخت مزاج والدہ نہیں ہوں۔ میری طبیعت میرے والد کی طرح نرم ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اپنے بچوں کو ڈانٹا ہو۔
ایک سوال کے جواب میں طاہرہ سید نے کہا کہ مجھے فیشن کا شروع سے بہت شوق رہا ہے اس وقت چونکہ ڈیزائنرز ہوتے تھے نہ بوتیک ہوا کرتی تھیں لہذا میں امریکی اور برطانوی رسالے دیکھ کر درزی کے پاس جاتی اور کپڑے سلوا لیتی، مہنگے سستے کے چکر میں کبھی نہیں پڑی۔ جب جو جیسا دل کو اچھا لگا کپڑا پہن لیا۔
طاہرہ سید کو ان کی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے فلموں اور ڈراموں میں کام کرنے کی آفر ہوئی لیکن ان کی دلچپسی گلوکاری میں تھی۔ اس لیے ایسی آفرز پر کبھی کان ہی نہیں دھرے۔

طاہرہ سید کا کہنا ہے کہ انہوں نے پی ٹی وی سے گلوکاری کا آغاز 14 برس کی عمر میں کیا (فوٹو: فیس بک طاہرہ سید)

انہوں نے بتایا کہ ’مجھے سیاست میں دلچپسی ہے نہ ہی کبھی سوچا کہ میں سیاست میں آﺅں، ہاں چیریٹی کا تھوڑا بہت کام کرتی رہتی ہوں وہ بھی بلامعاوضہ اپنی ذہنی تسکین کے لیے۔
فیض احمد فیض، احمد فراز، مہدی حسن، ریشماں، میڈم نور جہاں، اقبال بانو، فریدہ خانم کا ان کے گھر آنا جانا تھا۔ انہیں طاہرہ سید گھر آتے ضرور دیکھتیں لیکن ان کی صحبت انہیں میسر نہیں آئی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میری اور میرے شوہر کی علیحدگی کے بعد میں نے کبھی بھی دوبارہ شادی کرنے کا نہیں سوچا، دو لوگوں کا آپس میں رہنا ممکن بھی ہے اور ناممکن بھی، میں اور نعیم بخاری جتنی دیر اکٹھے رہے بہت خوش رہے اور جب ہم ناخوش تھے تو علیحدہ ہو گئے اور میں اسے اپنی یا نعیم کی ناکامی نہیں سمجھتی۔ ہمارے درمیان کبھی جھگڑے نہیں ہوئے ہم بہت ہی احترام کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔
انٹرویو کے آخر میں انہوں نے کہا کہ ’میری زندگی میں ایسا لمحہ کبھی نہیں آیا کہ جب میں کبھی افسردہ ہوئی ہوں، میرے اعصاب بہت مضبوط ہیں مجھے نہیں یاد کہ کسی چیز نے مجھے ڈاﺅن کیا ہو۔ ہاں والدین کے انتقال کا بہت دکھ ہوا تھا لیکن اس کے باوجود میں نے خود کو کبھی کمزور نہیں پڑنے دیا۔

شیئر: