Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کون سی جماعتوں پر کب اور کیوں پابندی لگی؟

آئین کے تحت وفاقی حکومت اختیار رکھتی ہے کہ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے مذہبی سیاسی تنظیم تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے سمری وفاقی کابینہ کو بھیجی جائے گی اور اس کی منظوری کے بعد وزارت داخلہ پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کرے گی۔ 
آئین کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔ 
قانونی طریقہ کار کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری وفاقی کابینہ دے گی۔ اس منظوری کے بعد وزارت داخلہ پارٹی پر پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کرے گی۔ اس نوٹی فیکیشن کی روشنی میں الیکشن کمیشن پارٹی کو ڈی لسٹ کرتے ہوئے اس کی رجسٹریشن ختم کر دے گا۔

 

اس اقدام کے نتیجے میں اگر پابندی کی زد میں آنے والی جماعت کی کسی بھی اسمبلی میں نمائندگی ہوگی تو ان ارکان کی رکنیت بھی ختم ہو جائے گی۔ 
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اگر پارٹی پر پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری ہونے سے پہلے ارکان سپیکر کو تحریری طور پر اپنی پارٹی سے وابستگی ختم کرکے آزاد حیثیت میں رہنے کے بارے میں آگاہ کر دیں تو ان کی رکنیت ختم نہیں ہوتی۔ دوسری صورت میں نہ صرف ان کی رکنیت ختم ہوتی ہے بلکہ وہ ضمنی الیکشن میں آزاد حیثیت سے حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہتے۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے بتایا کہ ’جب کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔‘
’سپریم کورٹ بھی اگر وفاقی حکومت کے فیصلے کو درست قرار دے دے تو وہ پارٹی ختم ہو جاتی ہے۔ پارٹی ختم ہونے کا مطلب ہے کہ حکومت اس کے دفاتر سیل اور اثاثہ جات قبضے میں لے کر بینک اکاؤنٹس منجمند کر دیتی ہے۔ وہ جماعت انتخابات میں حصہ لینے کی اہل بھی نہیں رہتی۔‘ 

وفاقی حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

انھوں نے کہا کہ ’ماضی قریب میں تو ایسی کسی سیاسی جماعت پر پابندی عائد نہیں ہوئی جس کی کسی اسمبلی میں نمائندگی موجود ہو تاہم 1975 میں نیشنل عوام پارٹی پر ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے لگائی جانے والی پابندی کے وقت ولی خان اور دیگر کی اسمبلی رکنیت ختم نہیں ہوئی تھی۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بتایاکہ ’پاکستان میں نام بدل کر کام کرنے پر پابندی کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔‘
’یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ایک دو ڈمی ناموں کی رجسٹریشن کرا رکھی ہوتی ہے کہ پابندی کی صورت میں وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔‘ 
خیال رہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954 میں ہوا جب اس وقت کی حکومت نے پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی۔ کمیونسٹ پارٹی بعد میں مختلف ناموں سے وجود میں آتی رہی لیکن 2013 میں ایک بار پھر الیکشن کمیشن میں اس نام سے پارٹی دوبارہ رجسٹر ہوئی۔ 

کابینہ کی منظوری کے بعد وزارت داخلہ پابندی کا نوٹی فیکیشن جاری کرے گی (فوٹو: اے پی پی)

ایوب خان کے دور میں کسی ایک سیاسی جماعت پر اس پابندی تو عائد نہیں ہوئی تاہم اس وقت ملک میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو کام سے روک دیا گیا تھا۔ یہ پابندی بعد ازاں اٹھا لی گئی تھی۔ 
پاکستان میں پابندی کا شکار ہونے والی دوسری جماعت نیشنل عوامی پارٹی تھی جس پر پہلے 1971 میں یحییٰ خان نے جبکہ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے پابندی عائد کی تھی۔ 
سال 2001 سے 2015 کے درمیان پاکستان نے 60 سے زائد مذہبی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور ان جماعتوں کے تحت کام کرنے والی فلاحی تنظیموں اور اداروں پر پابندی عائد کی۔
ان جماعتوں میں سپاہ صحابہ پاکستان، لشکری جھنگوی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، سپاہ محمد، تحریک اسلامی، لشکر طیبہ، جیش محمد اور دیگر شامل ہیں۔ 
2015  میں ملک میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت کارروائیوں کا آغاز ہوا تو ایسی کئی جماعتوں اور تنظیموں کے اثاثہ جات کو قبضے میں لے کر ان کے بینک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیے گئے تھے۔ 

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا آغاز 1954 میں ہوا اور کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائد کی گئی (فوٹو: اے پی پی)

سنہ 2018 کے انتخابات سے پہلے الدعوۃ والارشاد سے منسلک ملی مسلم لیگ نامی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی تاہم امریکہ کی جانب سے اس تنظیم پر پابندی کے باعث اس کو رجسٹریشن ہی نہیں دی گئی۔
بعد ازاں اس جماعت کے امیدواروں نے 'اللہ اکبر تحریک' کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ 
یاد رہے کہ تحریک لبیک پاکستان نے 2018 میں پہلی بار انتخابات میں حصہ لیا تھا اور پنجاب کے ہر دوسرے حلقے میں ان کے امیدوار تیسری پوزیشن پر موجود تھے جبکہ سندھ اسمبلی کی دو نشستوں پر تحریک لبیک کو کامیابی بھی ملی تھی۔ 

شیئر: