Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے خاتمے پر جواب طلب چند اہم سوال

11 دن جاری کشیدگی میں کم از کم 232 فلسطینی اور 12 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جمعے کو علی الصبح مصر کی کوششوں سے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی تو ہوگئی تاہم اب بھی کئی سوالات جواب طلب ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق غزہ میں کشیدگی کے خاتمے پر لوگوں نے سکون کا سانس لیا، جس میں کم سے کم  232 فلسطینی اور 12 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
نیو امریکہ تھنک ٹینک میں بین الاقوامی سکیورٹی سے منسلک توفیق رحیم کا کہنا ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے امن کی گہری بنیاد ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق ’اسرائیل میں بہت سارے لوگ امن کو خاموشی کے طور دیکھتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ فلسطینیوں کے لیے طویل ناانصافی کی صورت حال ہے۔‘
عرب کونسل فار سوشل سائنسز کے سابق چیئرمین عبدالخالق عبداللہ کہتے ہیں ’یہ واضح ہے کہ اسرائیلی آباد کاروں نے حالیہ کشیدگی کو ہوا دی، جو مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے میں شروع ہوئی۔‘
انہوں نے عرب نیوز کو مزید بتایا کہ ’اسرائیل کی حکومت اس کشیدگی کو کنٹرول کر سکتی تھی لیکن بظاہر اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ یہ کشیدگی بھی گذشتہ جارحیت جیسی تھی جو ہم نے سات سال کی جھڑپوں میں دیکھی۔‘  
دیگر ماہرین نے اس حقیقت پر بھی روشی ڈالی کہ فلسطینیوں کا احتجاج اور اضطراب اسرائیل میں عرب علاقوں تک بھی پھیلا۔ یافا، رملہ اور اللد سمیت اسرائیل اور عرب علاقوں میں لڑائی ہوئی جہاں فلسطینی پرچم لہرائے گئے اور یہودی عبات گاہوں اور ہسپتالوں پر حملے ہوئے۔
چیٹم ہاؤس میں ایسوسی ایٹ فیلو ندیم شہدی کا کہنا ہے کہ اس بحران نے تنازع کو پھر سے اپنی جڑوں کی جانب دھکیلا ہے۔
’اسرائیل کے اندر اس پیمانے پر احتجاج اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے، یہاں تک کہ دوسرے انتفاضہ کے دوران بھی نہیں۔‘

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے آئرن ڈوم فضائی نظام کے ذریعے حماس کے میزائل ناکارہ بنائے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

11 دن جاری لڑائی میں حماس کی جانب سے جنوبی اور وسطیٰ اسرائیل پر چار ہزار تین سو زیادہ میزائل داغے گئے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ 90 فیصدے میزائلوں کو آئرن ڈوم دفاعی نظام کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا۔
علاوہ ازیں یو اے ای میں رہائش پذیر دفاعی تجزیہ کار ریاض کہواجی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حماس کے حملوں سے اس کی تیاری توقع سے بڑھ کر سامنے آئی ہے اور اس کے پاس موجود میزائلوں اور دیگر ہھتیاروں جیسے ڈرونز کے معیار اور مقدار کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے اندر تک جانے کی صلاحیت کا پتہ بھی چلا ہے۔‘
حماس اور اس کے اخوان المسلمون اور ایران کے ساتھ رابطوں کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے میزائل ہتھیاروں کو جمع کیا اور خاص طور پر ابراہم اکارڈز کو سبوتاژ کرنے کے لیے لڑائی کا آغاز کیا۔ جس کو یہ سب بطور خطرہ دیکھتے ہیں۔
انسانی حقوق کے ایک رکن باسم عید کہتے ہیں کہ حماس نے ابراہم اکارڈز کو سبوتاژ کرنے کے لیے مشرقی یروشلم میں ایک مقامی تنازع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
ابوظبی میں سیاسیات کے سابق پروفیسر ڈاکٹر البدر الشطیری کا کہنا ہے کہ ’امریکہ، یورپ اور جی سی سی ممالک مقبوضہ علاقوں اور اسرائیل میں فلسطینیوں کی زندگیاں بہتر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔‘

جنگ بندی کے بعد غزہ میں فلسطینیوں نے جشن منایا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ روزگار کی فراہمی کے لیے سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی تعمیر نو، صحت اور تعلیم کے نظام میں بہتری یہ وہ چیزیں ہیں جس سے مذاکرات کے لیے راستہ نکل سکتا ہے۔
نیو امریکہ تھنک ٹینک میں بین الاقوامی سکیورٹی کے سینیئر فیلو توفیق رحیم کا کہنا ہے کہ صورت حال کی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں میں نئی قیادت کا خلا ہے اور اس وقت دونوں جانب بنیاد پرست قیادت موجود ہے۔
’فلسطین اور اسرائیل دونوں میں نئے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو تنازعات کے بجائے باہمی بقا کا تصور کر سکیں۔‘

شیئر: