Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایس ایل 6: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو کیا ہوگیا ہے؟

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد کی کپتانی پر بھی کئی سوالات اٹھے (فوٹو اے ایف پی)
2016  میں جب پاکستان سپر لیگ کا آغاز ہوا تو شائقین کرکٹ کی سب سے زیادہ نظر دو ٹیموں لاہور قلندر اور کراچی کنگز پر مرکوز تھی۔
اس کی وجہ ان دونوں ٹیموں کو بڑے گروپس کی طرف سے حاصل کیے جانا اور ان میں نامور بین الاقوامی کھلاڑیوں کا شامل ہونا تھا، جن میں ویسٹ انڈیز کے کرس گیل، ڈیون براوو، لنڈی سمنز، سری لنکا کے تلکا رتنے دلشان اور انگلینڈ کے روی بوپارہ شامل تھے۔
لیکن ان سب بڑے ستاروں کے ہوتے ہوئے بھی لاہور قلندرز اور کراچی کنگز نے بہت بری کارکردگی دکھائی اور آخری نمبروں پر آئیں۔ تاہم ایک ایسی ٹیم جس کو کسی نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی کیونکہ اس کے مالکوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا کہ وہ بڑے بڑے ناموں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنا پاتے اور اپنی ٹیم کی بہت زیادہ مارکیٹنگ کر پاتے۔ 
لیکن پھر بھی جس نے کمال کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ٹورنامنٹ میں دوسرے نمبر پر رہی وہ تھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز۔ جس کی کپتانی اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کے تینوں فارمیٹ کے کپتان سرفراز احمد کو دی گئی تھی ۔
کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پورے ٹورنامنٹ میں شاندار کارکردگی دکھائی اور فائنل تک رسائی حاصل کی۔ تاہم فائنل میں ان کو اسلام آباد یونائیٹڈ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پی ایس ایل کے دوسرے سیزن میں بھی کوئٹہ نے اپنی اسی عمدہ کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھا اور فائنل تک رسائی حاصل کی مگر اس دفعہ بھی وہ فائنل ہار گئے۔ اس مرتبہ ان کو ہرانے والی ٹیم پشاور زلمی تھی۔ 
یکے بعد دیگرے دو سیزن میں فائنل ہارنے سے شاید کوئٹہ کے مورال پر تھوڑا فرق پڑا اور تیسرے سیزن میں ان کی کارکردگی ملی جلی رہی جس کی وجہ سے وہ پلے آف میچز کے لیے کوالیفائی نہ کرسکے۔
مگر چوتھے سیزن میں گلیڈی ایٹرز نے شاندار کم بیک کیا اور پی ایس ایل کا ٹائٹل بالآخر دو فائنلز میں شکست کھانے کے بعد اپنے نام کرلیا۔ پی ایس ایل کے پانچویں سیزن میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز دفاعی چیمپیئن کی حیثیت سے حصہ لے رہی تھی تو شائقین کرکٹ کو امید تھی کہ وہ اپنی کارکردگی میں تسلسل دکھاتے ہوئے بہت عمدہ کھیلیں گے۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا اور گلیڈی ایٹرز کی ٹیم  پلے آف میچز کےلیے بھی کوالیفائی نہ کرسکی اور پوانٹس ٹیبل پر سب سے آخری نمبر پر رہی۔
کرکٹ مبصرین کا خیال تھا کہ پی ایس ایل کے چھٹے سیزن میں کوئٹہ پھر سے کم بیک کرے گی جیسے اس نے 2018 کے سیزن کے بعد 2019 میں کم بیک کر کے ٹائٹل اپنے نام کیا تھا۔ مگر اس دفعہ ایسا نہ ہوسکا اور کوئٹہ کی بری کارکردگی کا سلسلہ جاری رہا۔
اس سیزن میں جب پہلا حصہ کراچی میں کھیلا گیا تو پانچ میچز میں سے کوئٹہ نے صرف ایک میں کامیابی حاصل کی تھی۔ جس کے بعد کورونا کی وجہ پی ایس ایل ملتوی کر دیا گیا۔ لیکن ابھی متحدہ عرب امارات کے شہر ابو ظہبی میں اس کے دوبارہ آغاز سے پھر سے یہ امید ہو چلی تھی کہ چونکہ یو اے ای میں گلیڈی ایٹرز کا ریکارڈ بہت اچھا رہا ہے اور آندرے رسل سمیت کچھ عمدہ کھلاڑیوں کو بھی سکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھا تو شاید یہاں آکر ان کی ٹیم میں پھر سے وہ جان آجائے جس سے وہ اچھا پرفارم کرپائیں۔ 

اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے میچ میں گلیڈی ایٹرز کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 133 رنز ہی بنا سکی (فوٹو اے ایف پی)

لیکن اس حصے کے اب تک کے چاروں میچز میں بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے بہت بری کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اسے بد ترین شکست کی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلے گئے پہلے میچ میں گلیڈی ایٹرز کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف 133 رنز ہی بنا سکی۔ اس ہدف کو یونائیٹڈ نے ان کے اوپنرز کولن منرو اور عثمان خواجہ کی جارحانہ بیٹنگ کی بدولت 10 اوورز میں ہی حاصل کر لیا۔
دوسرے میچ میں پشاور زلمی کے خلاف گلیڈی ایٹرز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کی۔ اور ایک اچھے آغاز کے باوجود بھی زلمی سے 197 رنز کروا دیے اور جواب میں بھی 62 رنز کی اوپننگ پارٹنرشپ کے باوجود ان کی ٹیم محض 136 رنز ہی بنا سکی۔ 
لاہور قلندرز کے خلاف اس لیگ کے اپنے تیسرے میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اگرچہ قدرے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 158 رنز بنائے۔ لیکن قلندرز کی سات وکٹیں محض 66 رنز پر حاصل کر لینے کے باوجود بھی ان کا سکور 140 تک کروادیا اور بمشکل 18 رنز سے اس سیزن کی اپنی دوسری فتح حاصل کی۔
اسی طرح اپنے چوتھے میچ میں ملتان سلطانز کے خلاف بھی گلیڈی ایٹرز کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹاس جیت کر جب انہوں نے سلطانز کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی تو 183 رنز بنوا دیے اور جواب میں ان کی پوری ٹیم صرف 73 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ 
اس سیزن میں نو میچز کھیلنے کے بعد کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے دو میچز میں کامیابی حاصل کر کے صرف چار پوائنٹس ہی حاصل کیے ہیں۔ اور وہ پلے آف کی دوڑ سے بھی باہر ہوگئے ہیں۔ وہ اپنا آخری میچ چاہے جیت بھی جائیں تب بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے چار سیزن میں عمدہ کارکردگی دکھانے والی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو آخر کیا ہوگیا ہے کہ جو اگلے دو سیزن میں ان کی طرف سے ناقص ترین کارکردگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے؟ دوبارہ سے پہلے والی فارم حاصل کرنے کے لیے ان کو کیا کرنا ہوگا ؟ جہاں تک ان دو سیزن میں گلیڈی ایٹرز کی بری کارکردگی کی بات ہے تو اس کے کئی پہلو ہیں۔ 

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز  چاہے بلے باز ہوں یا بولرز، سب کو ہی بار بار بدلا گیا (فوٹو اے ایف پی)

سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ جن بین الاقوامی کھلاڑیوں کی خدمات ان کو پہلے چار سیزنز میں حاصل رہیں۔ انہوں نے تسلسل سے بہت شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ چاہے وہ کیون پیٹرسن ہوں، یا شین واٹسن، ریلی روسو، گرانٹ ایلیٹ یا فواد احمد، سب نے ہی اپنی عمدہ کارکردگی سے گلیڈی ایٹرز کو کئی میچز جتوائے۔
لیکن ان میں سے کچھ کھلاڑی پی ایس ایل چھوڑ گئے اور کچھ دوسری ٹیموں میں چلے گئے۔ ان کی جگہ پر انہوں نے جتنے بھی کھلاڑی آزمائے وہ ویسے کارآمد ثابت نہیں ہوسکے۔ اس کے علاؤہ پے در پے شکست کی وجہ سے بار بار ٹیم میں ہر میچ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ جس سے ٹیم کا کمبی نیشن ہی نہیں بن پایا، اور ٹی 20 کرکٹ کے لیے کمبی نیشن کا بننا بہت ہی لازمی جزو ہوتا ہے۔
 چاہے بلے باز ہوں یا بولرز، سب کو ہی بار بار بدلا گیا۔ پھر ڈرافٹ میں کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے وقت انہوں نے بلے باز تو شاید پھر بھی بہتر رکھ لیے مگر بولرز کا چناؤ ان کی طرف سے اچھا نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے یا تو بولرز پہلے سکور زیادہ کروا دیتے تھے یا پھر بڑا ہدف ہونے کے باوجود بھی اس کا دفاع نہیں کر پاتے تھے۔
اس کے ساتھ اس سیزن میں تو ان کو انجریز کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آندرے رسل کو ابو ظہبی والے حصے کے لیے سکواڈ کا حصہ بنایا گیا مگر وہ پہلے ہی میچ میں باؤنسر لگنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔ اسی طرح فف ڈوپلیسی جو کہ آئی پی ایل میں اچھی فارم میں تھے وہ بھی ان فٹ ہو کر سکواڈ سے باہر ہوگئے۔ 
پھر ان کے کپتان سرفراز احمد کی کپتانی پر بھی کئی سوالات اٹھے۔ سرفراز وہ کپتان تھے جنہوں نے پاکستان کو ٹی 20 کرکٹ میں نمبر ون ٹیم بنایا تھا۔ مگر کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے ساتھ پچھلے دو سیزنز سے یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بہت خراب کپتانی کی۔ تمام ہی میچز میں وہ بہت زیادہ جذباتی ہو کر کئی کھلاڑیوں پر غصہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ جس کی وجہ سے وہ نہ تو درست فیصلے کر سکے اور نہ ہی اپنی انفرادی کارکردگی اچھی دکھا سکے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو اب ایسا کیا کرنا ہو گا کہ وہ دوبارہ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں تو سب سے پہلے تو انہیں یہ چاہیے کہ اپنا کپتان بدل دیں۔ 
فف ڈوپلیسی یا کسی اور بین الاقوامی تجربہ کار کھلاڑی کو کپتان بنا دیں۔ سرفراز کو بطور کھلاڑی ٹیم میں کھلائیں۔ اس سے ان پر دباؤ کم ہوگا اور وہ انفرادی طور پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پائیں گے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو چاہیے کہ میچز کے دوران بار بار تبدیلیوں سے گریز کریں تاکہ ان کا کمبی نیشن اچھا بن سکے (فوٹو اے ایف پی)

اس کے ساتھ اگلے ڈرافٹ میں ایسے بین الاقوامی کھلاڑیوں کا انتخاب کریں جو ایک تو پورے سیزن کے لیے ان کو دستیاب ہوں اور دوسرا جو تسلسل کے ساتھ ٹی 20 سرکٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہوں۔
اس کے علاؤہ میچز کے دوران بار بار تبدیلیوں سے گریز کریں تاکہ ان کا کمبی نیشن اچھا بن سکے۔ پھر ان کو کچھ اچھے بولرز کو اپنے سکواڈ کا حصہ بنانے کی اشد ضرورت ہے جو نہ صرف دوسری ٹیموں کو بہت زیادہ سکور نہ کرنے دیں بلکہ اچھے طریقے سے ہدف کا دفاع بھی کرسکیں۔ 
مزید جو ان کے ساتھ مقامی کھلاڑی کافی عرصہ سے ساتھ ہیں مگر پرفارم نہیں کر رہے ان کی جگہ پر بلوچستان کے مقامی کھلاڑیوں کو موقع دیں تاکہ وہ عمدہ کارکردگی دکھا کر اپنے علاقے کے لیے فخر کا باعث بن سکیں۔
گلیڈی ایٹرز اگر ان عوامل کو مدنظر رکھ لیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ وہ پی ایس ایل کے اگلے سیزن میں عمدہ کارکردگی دکھا پائیں گے کیونکہ اس کی ان کو اشد ضرورت اس لیے ہے کہ ان کے مداحین اس وقت مایوس ہیں اور وہ پھر سے اپنی فیورٹ ٹیم کو اچھا کھیلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ 

شیئر: