Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرانزک تحقیقات جرائم کے کیسز کو حل کرنے میں کتنی مددگار؟

پاکستان میں فرانزک تحقیقات کے دو بڑے ادارے موجود ہیں۔ (فوٹو: فلکر)
پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے کوئی بھی ایسا جرم سرزد ہو جس کی تحقیقات کی وسیع پیمانے پر ضرورت ہو تو حکومت یا تحقیقاتی اداروں کی جانب سے فرانزک تحقیقات کی تجویز سامنے آتی ہے۔
جج ارشد ملک کی آڈیو، ویڈیو کا معاملہ ہو یا عثمان مرزا کیس کی ویڈیو، زینب قتل کیس ہو یا پھر موٹروے ریپ کیس، یہاں تک کہ شوگر تحقیقات جیسے وائٹ کالر معاملات کی تحقیقات کے لیے بھی فرانزک تحقیقات کرائی گئی ہیں۔
یہ فرانزک تحقیقات کیسے ہوتی ہیں، پاکستان میں اس حوالے سے کیا سہولیات موجود ہیں اور ان سے کسی بھی کیس کو حل کرنے میں کتنی مدد ملتی ہے؟

فرانزک تحقیقات کیا ہیں؟

ماہرین کے مطابق فرانزک تحقیقات قانونی نظام میں کسی بھی معاملے کی وسیع تر تحقیقات اور سوالات کے جوابات تلاش کرنے کا ایک سائنسی ٹول ہے۔
فرانزک سائنس ایکسپرٹ دانش بشیر منگی کے مطابق ’فرانزک تحقیقات کے ذریعے کسی بھی جرم یا واقعے کو سائنسی طریقے اور اصولوں کے ذریعے شواہد ثابت کرنے، جرم کے طریقہ کار اور جسمانی شناخت میں مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ یعنی پولیس یا تحقیقاتی ایجنسی ملنے والے شواہد سے متعلق جن سوالات کے جواب جاننا چاہتی ہے فرانزک کے ذریعے وہ تلاش کیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’فرانزک تحقیقات کا آغاز کرائم سین سے ہی کیا جاتا ہے تاہم پاکستان میں کرائم سین انویسٹی گیشن پر بہت زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بہت ضروری ہے کہ موقع واردات سے کسی قسم کا کوئی ثبوت ضائع نہ ہونے پائے۔‘
دانش بشیر منگی کا کہنا ہے کہ ’فرانزک تحقیقات کے نتائج کی کامیابی کا انحصار بھی پولیس کی جانب سے موقع واردات سے جمع کیے گئے شواہد پر ہی ہوتا ہے۔ اگر اس میں فرانزک پروٹوکول کا خیال رکھا جائے تو فرانزک تحقیقات انصاف کی فراہمی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق عدالتیں بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ فرانزک تحقیقات کو فروغ دیا جائے۔ (فوٹو: پکس ہیئر)

فرانزک ایکسپرٹ صائمہ بتول نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’فرانزک تحقیقات دراصل کسی جرم کے طبعی شواہد کا سائنسی جائزے کا نام ہے۔ جیسے ڈی این اے، خون کے نمونہ جات، فنگر پرنٹس اور دیگر انسانی اعضا کا سائنسی مشاہدہ فرانزک تحقیقات میں شمار ہوتے ہیں۔‘

فرانزک تحقیقات کیوں ضروری ہیں؟

پاکستان میں عموماً یہ شکایت سننے کو ملتی ہے کہ پولیس ملزموں کو گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کرتی ہے لیکن عدالتیں انھیں عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ ایک تو پولیس مقدمے کے ثبوتوں کو خراب کر دیتی ہے یا پھر عدالتوں میں جھوٹے گواہ پیش ہو جاتے ہیں جو ملزمان کو بچانے کے باعث بنتے ہیں۔ اسی وجہ سے عدالتیں بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ فرانزک تحقیقات کو فروغ دیا جائے۔  
پاکستان کے سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور نے اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’پہلے ایک روایتی تفتیش کا طریقہ کار ہوتا تھا جو اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ اب جدید اور سائنسی طریقے سے ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں یا جمع شدہ ثبوتوں کا فرانزک کروایا جاتا ہے جو بعد میں مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنا کر عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اگر کسی ویڈیو میں ایک فرد جرم کرتا ہوا نظر آتا ہے اور تحقیقات کے دوران وہ یہ کہہ دے کہ ویڈیو میں وہ موجود نہیں بلکہ ویڈیو ایڈٹ کی گئی ہے تو فرانزک تحقیقات کے ذریعے چیک کیا جا سکتا ہے کہ ویڈیو کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا نہیں۔‘
شاہ خاور نے بتایا کہ ’حال ہی میں عثمان مرزا کیس جس میں ملزمان کی جانب سے لڑکی اور لڑکے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اب نور مقدم قتل کیس میں بھی ویڈیو کا فرانزک ٹیسٹ کرایا گیا ہے۔‘

سابق ڈپٹی اٹارنی جنرل شاہ خاور نے بتایا کہ ’اب جمع شدہ ثبوتوں کا فرانزک کروایا جاتا ہے جو بعد میں مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ بنا کر عدالتوں میں پیش کیے جاتے ہیں‘ (فوٹو: فلکر)

شاہ خاور کے مطابق ’صرف یہی نہیں بلکہ فرانزک تحقیقات کے ذریعے پولی گرافک ٹیسٹ کے ذریعے ملزم کی نبض کی رفتار، دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی حرکات کے ذریعے ماہرین اس کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تجزیہ سائنسی بنیادوں پر کر سکتے ہیں اور عدالتیں اسے تسلیم بھی کرتی ہیں۔‘
صائمہ بتول کے مطابق ’روایتی طریقہ کار میں مضروب کا میڈیکو لیگل کروایا جاتا تھا جبکہ جدید تفتیش میں میڈیکو لیگل نہیں بلکہ فرانزک کروایا جاتا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ فوری انصاف فراہم کیا جا سکے اور شواہد ضائع ہونے کا کوئی امکان نہ ہو۔‘

پاکستان میں فرانزک تحقیقات کی دستیاب سہولیات

پاکستان میں اس فرانزک تحقیقات کے دو بڑے ادارے موجود ہیں جن میں ایک نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی ہے جس کے تحت مختلف لیبارٹریز ہیں جبکہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی دوسرا ادارہ ہے۔
وفاق کی سطح پر نیشنل فرانزک سائنس ایجنسی کا قیام 2002 میں عمل لایا گیا۔ جس کی مختلف لیبارٹریز تحقیقات کے لیے استعمال ہوتی ہیں جن میں ڈی این اے، فائر آرمز، فنگر پرنٹس، دھماکہ خیز مواد اور کرائم سین انویسٹی گیشن کی سہولیات موجود ہیں۔
دوسری جانب پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی اس شعبے میں سب سے جدید ہے جو نہ صرف صوبے بلکہ وفاق اور دیگر صوبوں کو بھی خدمات فراہم کر رہی ہے۔

پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں مختلف قسم کی فرانزک کی سہولیات موجود ہیں۔ (فوٹو: فیس بک پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی)

پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی میں آڈیو ویڈیو تجزیہ، فرانزک فوٹو گرافی، کمپیوٹر فرانزک، ڈی این اے اور سیرالوجی، پتھالوجی، فنگر پرنٹ، منشیات اور ٹریس کیمسٹری کے فرانزک کی سہولیات موجود ہیں۔
سانحہ مستونگ، زینب قتل کیس، موٹرے وے ریپ کیس، عزیز الرحمان کیس، اومنی گروپ سکینڈل، اجمل وزیر آڈیو سکینڈل، ڈہرکی ٹرین حادثے سمیت متعدد واقعات کی فرانزک تحقیقات کروائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں پولیس کی فرانزک سائنس لیبارٹری اور کراچی یونیورسٹی میں سندھ کی فرانزک سائنس لیبارٹری نے بھی کام شروع کر دیا ہے۔
لیکن ماہرین کے مطابق خیبر پختونخوا لیبارٹری میں ڈی این اے اور سیرالوجی کے علاوہ انوسٹی گیشن کی ابتدائی سہولیات ہی دستیاب ہیں جبکہ سندھ کی لیبارٹری میں صرف ڈی این اے کی سہولت موجود ہے۔
فرانزک ایکسپرٹ صائمہ بتول کے مطابق ’تمام لیبارٹریز سرکاری ہیں جبکہ پرائیویٹ لیبارٹریز میں فرانزک کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جو فرانزک سہولیات دستیاب ہیں وہاں پر تربیت یافتہ افراد نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اس کے لیے سب سے پہلے فرانزک ماہرین کی بھرتی کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکاروں کو جدید خطوط پر تربیت دینا ہوگی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فرانزک تحقیقات کو پولیس اہلکاروں کے اعصاب پر سوار کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان کو تربیت دے بھی دی جائے تو وہ سائنسی اصولوں اور فرانزک پروٹوکولز کو فالو نہیں کر سکتے۔ اس لیے پولیس میں بھی فرانزک ماہرین کی بھرتی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے قانون شہادت میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے جو فرانزک تحقیقات کو عدالت نظام میں مکمل قابل قبول بنائے۔‘

شیئر: