Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2015 میں داعش کا حملہ، فرانس کے سب سے بڑے مقدمے کا بدھ سے آغاز

صلاح عبد السلام 2018 میں بیلجیئم میں ایک علیحدہ مقدمے کے دوران زیادہ تر خاموش رہے. (فوٹو: روئٹرز)
فرانس کی جدید قانونی تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ بدھ سے نومبر 2015 میں پیرس پر ہونے والے حملوں سے شروع ہو رہا ہے جس میں 130 افراد کو بارز، ریستورانوں اور کنسرٹ ہال میں قتل کیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عسکریت پسندوں کی تین ٹیموں کی جانب سے خودکش بمباری اور فائرنگ کی گئی، بعد میں داعش نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس کی تاریخ کا بدترین ظلم تھا۔
وسطی پیرس میں تاریخی عدالت انصاف میں ایک خاص تعمیر شدہ جگہ میں مقدمے کی سماعت ہوگی جبکہ 20 میں سے 14 مدعا علہیان موجود ہوگے جن میں واحد زندہ بچ جانے والا حملہ آور صلاح عبد السلام بھی شامل ہے۔
مقدمے کے حوالے سے میوزک وینیو حملے میں بچ جانے والے اور لائف فار پیرس متاثرین کی ایسوسی ایشن کے صدر آرتھر ڈینووو کا کہنا ہے کہ ’ہر ایک کی اپنی اپنی توقعات ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری مستقبل کی زندگیوں کے لیے ایک اہم سنگ میل ہے۔‘
عسکریت پسندوں کے اس تکلیف دہ قتل عام، جس کی منصوبہ بندی شام میں کئی گئی تھی، کا ٹرائل ایک بے مثال واقعہ ہے جس کی حالیہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
اس مقدمے کی سماعت مئی 2022 کے آخر تک نو ماہ تک جاری رہے گی، جس میں 145 دن سماعت ہوگی۔ اس میں تقریباً 330 وکلا، 300 متاثرین اور سابق صدر فرانسوا اولاند شامل ہوں گے جو نومبر میں گواہی دے گے۔
اس کیس کی فائل کے صفحات کی تعداد 10 لاکھ ہے جو 542 والیمز پر مشتمل ہیں۔
بیلجیئم میں پیدا ہونے والے فرانسیسی نژاد مراکشی صلاح عبدالسلام اپنی خودکش بیلٹ چھوڑنے کے بعد قتل عام کے مقام سے فرار ہو گئے تھے۔
31 سالہ عبدالسلام جو اب 31 سال کے ہیں، بعد میں چار ماہ کے فرار کے بعد برسلز میں پکڑے گئے تھے۔ وہ اپنے خاندانی گھر کے قریب ایک عمارت میں چھپے ہوئے تھے۔
انہوں نے فرانسیسی تفتیش میں تعاون کرنے سے قطعی انکار کر دیا ہے اور 2018 میں بیلجیئم میں ایک علیحدہ مقدمے کے دوران زیادہ تر خاموش رہے اور وہاں انہیں صرف یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ انہوں نے ’اللہ پر بھروسہ‘ کیا اور عدالت جانبدار تھی۔
تاہم ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا وہ جنوری 2022 کے وسط میں اپنی طے شدہ گواہی والے دن بات کریں گے۔

شیئر: