Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغان خواتین ’بہت مضبوط‘ ہیں اور طالبان کے دور میں اپنے حق کا دعویٰ کریں گی‘

وزیر اعظم عمران خان نے منگل کے روز کہا کہ افغان خواتین ’بہت مضبوط‘ ہیں اور ممکنہ طور پر طالبان کے دور میں اپنے حق کا دعویٰ کریں گی۔‘
عمران خان بی بی سی کو انٹرویو کے دوران امریکی حمایت یافتہ اشرف غنی انتظامیہ کے خاتمے اور طالبان حکومت کے آنے کے بعد افغانستان میں خواتین کے حقوق کے بارے میں ایک سوال کا جواب دے رہے تھے۔
جب 1996 سے 2001 کے درمیان افغانستان میں قدامت پسند طالبان اقتدار میں آئے تو خواتین کو کام کرنے اور لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔
جب 1996 سے 2001 کے درمیان افغانستان میں قدامت پسند طالبان اقتدار میں آئے تو خواتین کو کام کرنے اور لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی۔
اگرچہ طالبان نے کہا ہے کہ ’وہ اپنی پرانی ​​پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کریں گے، جبکہ حال ہی میں انہوں نے کابل میں وزارت امور خواتین کو بند کر کے اس کی جگہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت قائم کردی۔
خیال رہے کہ طالبان نے گزشتہ ہفتے صرف لڑکوں اور مرد اساتذہ کو سکولوں میں جانے کی اجازت دی تھی لیکن وزیراعظم عمران خان سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں بھی جلد سکول جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ’طالبان کی جانب سے دیے جانے والے بیانات کافی حوصلہ افزا ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت دے دیں گے۔ یہ خیال کہ عورتوں کو تعلیم نہیں دینی چاہیے، قطعی غیر اسلامی ہے۔اس کا مذہب (اسلام) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق عمران خان نے کہا کہ ’پاکستان طالبان کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے سے متعلق فیصلہ پڑوسی ممالک سے مل کر ہی کرے گا۔ تمام پڑوسی مل بیٹھیں گے اور دیکھیں کہ کس طرح کی پیش رفت ہو رہی ہے۔طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اجتماعی ہو گا۔‘
عمران خان نے طالبان کو ایک شمولیتی حکومت بنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ سب فریقوں کو شامل نہیں کریں گے تو جلد یا بدیر انہیں خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کا نتیجہ ایک غیر مستحکم اور افراتفری کے شکار افغانستان کی صورت میں سامنے آئے گا جو دہشت گردوں کے لیے آئیڈیل مقام بن جائے گا۔ یہی فکرمندی کی بات ہے۔‘
 

شیئر: