Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب کا تقرر: موجودہ حکومت میں سب سے زیادہ آرڈیننس جاری ہوئے

موجودہ حکومت نے تین پارلیمانی سالوں میں 146 بل پیش کیے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سینیٹ میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اسی وجہ سے موجودہ حکومت نے ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں قانون سازی کے لیے سب سے زیادہ آرڈیننس جاری کیے ہیں۔
موجودہ حکومت نے تین برس میں 77 آرڈیننس جاری کیے جس میں 20 ایکٹ آف پارلیمنٹ 10 مختلف عدالتوں میں چیلنج ہوئے 50 سے زائد آرڈیننس لیپس ہوگئے۔
چیئرمین نیب کی تعیناتی کے حوالے سے قائد حزب اختلاف کے ساتھ قانونی مشاورت کی شرط پر تحفظات کے بعد حکومت نے چیئرمین نیب کو توسیع دینے کے لیے ایک بار پھر آرڈیننس کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پارلیمانی اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنے پہلے تین سال میں مجموعی طور پر اب تک 77 آرڈیننس جاری جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے پہلے تین برسوں میں 29 آرڈیننس جاری کیے تھے۔  
ن لیگ کے پاس دونوں ایوانوں میں اکثریت ہونے کی وجہ سے ان کے تمام آرڈنینس بلوں کی صورت میں منظور ہوئے تاہم تحریک انصاف پیش کیے گئے 77 آرڈیننسوں میں سے صرف 20 کو ہی ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درجہ دلوا سکی۔
موجودہ حکومت نے جو اہم آرڈیننس جاری کیے ان میں ٹیکس قوانین میں ترمیم سے متعلق تین آرڈیننس، انتخابی اصلاحات سے متعلق تین آرڈیننس، سی پیک اتھارٹی کے قیام کا آرڈیننس، نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی آرڈیننس ، خواتین کو وراثت کا حق دلوانے کا آرڈیننس، پاکستان میڈیکل کونسل کے قیام کا آرڈیننس، اور ایچ ای سی ترمیمی آرڈیننس سمیت کئی دیگر شامل ہیں۔

موجودہ حکومت نے اپنے پہلے تین سال میں مجموعی طور پر اب تک 77 آرڈیننس جاری کیے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان میں سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی تحلیل سے متعلق آرڈینیس، سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ پر کرانے سے آرڈینیس، ایچ ای سی ترمیمی آرڈیننس اور 60 دن میں حلف اٹھانے کی شرط اٹھانے والے آرڈیننس سمیت ساتھ دیگر آرڈیننس مختلف عدالتوں میں چیلنج ہوئے۔
پی ایم ڈی سی کو تحلیل کرنے والے آرڈیننس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے پی ایم ڈی سی کو بحال کر دیا تھا جس کے بعد حکومت نے قانون سازی کا راستہ اپناتے پاکستان میڈیکل کونسل قائم کی۔
سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے متعلق آرڈیننس جاری کیا تو اس میں شرط رکھی گئی کہ صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے اس معاملے پر رائے مانگی ہے تو اس آرڈیننس کا مستقبل اس رائے سے مشروط ہوگا۔ مختلف جماعتوں اور بار کونسلز نے اس آرڈیننس کو بھی چیلنج کیا لیکن سپریم کورٹ کی رائے سامنے آنے کے بعد یہ اپنی موت آپ مر گیا۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی آرڈیننس بیک وقت سندھ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہوا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس میں جزوی حکم امتناعی دیتے ہوئے اس پر فیصلہ ہونے تک نیا چیئرمین ایچ ای سی تعینات نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

موجودہ حکومت نے جو اہم آرڈیننس جاری کیے ان میں ٹیکس قوانین میں ترمیم سے متعلق تین آرڈیننس ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

30 اکتوبر 2020 کو وفاقی حکومت نے ایک ہی دن میں سات آرڈیننس جاری کیے جسے مسلم لیگ ن کے ایم این اے محسن نواز رانجھا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت صدر کے آرڈیننس جاری کرنے کے اختیار کی تشریح کرتے ہوئے اسے ہنگامی حالات جیسے جنگ، قحط یا طوفان وغیرہ تک محدود کرے۔ پارلیمان کی موجودگی میں آرڈیننس کا اجرا غیر قانونی قرار دیا جائے۔
عدالت میں یہ معاملہ زیر التوا ہے تاہم یہ تمام آرڈیننس اپنی مدت پوری کرنے پر تحلیل ہوچکے ہیں اور ان کو قانون کی شکل نہیں دی جا سکی۔

حکومت نے چیئرمین نیب کو توسیع دینے کے لیے ایک بار پھر آرڈیننس کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

آرڈیننسز کے علاوہ موجودہ حکومت کی جانب سے تین پارلیمانی سالوں میں مجموعی طور پر 146 بل پیش کیے گئے جو سابق حکومت سے تعداد میں 40 فیصد زائد ہیں تاہم ان میں سے دونوں ایوانوں نے الگ الگ 135 بلوں کی منطوری دی۔ تاہم ان میں سے بھی صرف 58 کو ہی ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درجہ ملا یعنی دونوں ایوانوں نے اس کی منظوری دے کر صدر مملکت کو بھیجا اور انہوں نے دستخط کرنے کے بعد قانون کی شکل دی۔
خیال رہے کہ آرڈیننس کے ذریعے قانون سازی صدر مملکت کا اختیار ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اگر حکومت آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کے اختیار میں توسیع کرتی ہے تو عدالت میں چیلنج کیے جانے کے باوجود اپوزیشن کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ حکومت کو اس فیصلے سے روک سکیں۔
سابق وزیر قانون خالد رانجھا کے مطابق عدالت بارہا کہہ چکی ہے کہ صدر مملکت کا آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار عدالت ختم نہیں کر سکتی۔ اس صورت میں اپوزیشن کے پاس حکومت کی بد نیتی ثابت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تاہم عدالت میں حکومتی بد نیتی ثابت کرنا سب سے مشکل کام ہے۔

شیئر: