Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرپٹو کرنسی پرپابندی کس قانون کے تحت لگائی گئی: لاہور ہائی کورٹ

ملک میں اس وقت متعدد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جن میں لوگوں کے ساتھ کرپٹو  کرنسی کی مد میں فراڈ ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائی کورٹ نے کرپٹو کرنسی کے ایک مقدمے میں بینکنگ جرائم کورٹ کو کاروائی سے روکتے ہوئے حکومتی اداروں سے جواب طلب کر لیا ہے۔ 
بدھ کو ایک مختصر عدالتی فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے سٹیٹ بنک آف پاکستان، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور سیکرٹری فنانس سے اس بات پر جوب طلب کیا ہے کہ بتایا جائے ملک میں ڈیجیٹل کرنسی پر پابندی کس قانون کےتحت لگائی گئی ہے۔ 
عدالت نے یہ حکم ایک ایسے شہری کی درخواست پر جاری کیا ہے جس کے ساتھ کرپٹو  کرنسی کے کاروبار میں مبینہ طور پر تقریبا 26 کروڑ روپے کا فراڈ ہوا ہے۔ 
فیصل آباد کے شہری محمد اصغر نے لاہور ہائی کورٹ میں بینکنگ کورٹ کے اس حکم نامے کا چیلنج کیا تھا جس میں ملزم کی ضمانت منظور کی گئی تھی۔ 
اپنی درخواست میں شہری نے استدعا کی کہ بینکنگ کورٹ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے ملزم کی ضمانت لی۔ یہ مقدمہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں مئی کے مہینے میں درج ہوا تھا۔ 
ملزم نے بینکنگ کورٹ سے رجوع کرکے ضمانت کروا لی جبکہ بینکنگ جرائم کورٹ سائبر کرائم کے مقدمے سننے کی اہل ہی نہیں ہے۔ 
محمد اصغر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’ملزم نے بینکنگ کورٹ کو گمراہ کر کے ضمانت حاصل کی۔ نہ صرف اس عدالتی حکم کو ختم کیا جائے بلکہ حکومتی ادروں سے یہ بھی پوچھا جائے کہ ملک میں کرپٹو  کرنسی کے قوانین کیا ہیں۔‘
عدالت نے ابتدائی سماعت پر حکومتی وکلا کو جواب داخل کروانے کا حکم دیتے ہوئے بینکنگ کورٹ کو مزید کسی بھی قسم کی کاوائی کرنے سے بھی روک دیا ہے۔ 

عدالت نے  یہ سوال اٹھایا کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان یہ بتائے کہ اس وقت ملک میں کرپٹو  کرنسی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس جواد حسن نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’یہ ایک سیریس قسم کا معاملہ ہے جس میں الزام ہے کہ ایک عدالت نے اپنی حدود سے تجاوز کیا لہذا یہ ایک قابل سماعت کیس ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’اس درخواست میں انتہائی اہم قانونی نقطے اٹھائے گئے ہیں جبکہ عوامی مفادات کا خیال رکھنا خاص طور پر ایسے وقت میں جب کہ معاملہ کرپٹو  کرنسی میں سیونگ کا ہو اور ملک میں اس سے متعلق کوئی قانونی بھی موجود نہ ہو۔‘
عدالت نے مختلف فیصلے میں یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سٹیٹ بنک آف پاکستان یہ بتائے کہ اس وقت ملک میں کرپٹو  کرنسی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اور کس رول کےتحت اس کرنسی کو ریگولیٹ کیا گیا ہے؟ اور کیا ایف آئی اے نے سائبر کرائم کے تحت کرپٹو  مائنرز اور کرپٹو  ٹریڈرز کے خلاف کس طرح کے اقدامات کر رہی ہے؟ کیا ایف آئی اے سائبر ایکٹ کے تحت کرپٹو  کرنسی فراڈ سے متعلق تحقیقات قانونی طور پر کر بھی سکتی ہے یا نہیں؟ 

پاکستان میں کرپٹو کرنسی فراڈ کے مقدمات کے ٹرائل کے لیے کوئی لیگل فورم موجود نہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے اس مقدمے کی مزید سماعت کے لیے خاتون وکیل بیرسٹر ندرا عبدالمجید کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کرپٹو  کرنسی سے متعلق دنیا بھر میں رائج قوانین پر تحقیقی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 
خیال رہے کہ ملک میں اس وقت متعدد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جن میں لوگوں کے ساتھ کرپٹو  کرنسی کی مد میں فراڈ ہو چکے ہیں لیکن ان مقدمات کے ٹرائل کے لیے کوئی لیگل فورم موجود نہیں۔ یہ مقدمات ایف آئی اے کے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت درج کئے گئے ہیں۔ 

شیئر: