Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تنظیم تحلیل کرنے کا فیصلہ: تحریک انصاف کی نئی پارٹی پالیسی سے ورکرز نالاں کیوں؟

تحریک انصاف کے سابق عہدیدار نے بتایا کہ ’پارٹی کے اندر اس وقت ہر کوئی حیران ہے کہ پارٹی توڑنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے حال ہی میں ملک بھر میں اپنی تنظیم توڑ دی ہے اور تمام عہدیدران کو یک جنبش قلم فارغ کر دیا ہے۔
یہ ایسے وقت میں کیا گیا جب خیبر پختونخواہ میں حکمراں جماعت کو خلاف توقع بلدیاتی انتخابات میں شکست سے دو چار ہونا پڑا ہے۔  
پارٹی چیئرمین اور ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کرنے کے بعد چاروں صوبوں میں پارٹی کے نئے صدور تو مقرر کر دیے ہیں جو اب نئے سرے سے جماعت کی تنظیم نو کریں گے۔ جماعت کا نیا سیکرٹری جنرل وفاقی وزیر اسد عمر کو بنا دیا گیا ہے جب کہ خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کو پارٹی کا صدر بنایا گیا ہے۔ 
پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان نے وسطی اور شمالی پنجاب کے لیے شفقت محمود، جنوبی پنجاب کے لیے خسرو بختیار، بلوچستان کے لیے ڈپٹی سپیکر قاسم علی سوری اور سندھ کے لیے علی زیدی کو پارٹی صدر بنانے کا نوٹفیکیشن جاری کیا ہے۔ 
ایسے میں کئی ایسے سوالات ابھرے ہیں کہ پارٹی کے اندر اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی کی وجوہات آخر ہیں کیا۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پارٹی کے وسطی پنجاب کے سابق صدر اعجاز چوہدری  سے رابطہ کیا تاہم وہ اس معاملے پر بات کرنے سے انکارکیا۔ 
تاہم تحریک انصاف پنجاب کے ایک سابق اعلی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے پارٹی کے اندرونی معاملات پر کھل کر بات کی ہے۔ ان کا آڈیو انٹرویو موجود ہے اس خبر میں  تمام معلومات ان کی اجازت سے شیئر کی جا رہی ہیں۔ 

خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں خراب کارکردگی پر عمران خان نے پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ تحلیل کر دیا تھا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

تحریک انصاف کے سابق اعلی عہدیدار نے بتایا کہ ’پارٹی کے اندر اس وقت ہر کوئی حیران ہے کہ پارٹی توڑنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ اگر وجہ کے پی کے کے انتخابات ہیں تو باقی تین صوبوں کا کیا قصور ہے؟ میں اس سے بھی ایک قدم آگے جا کر کہوں گا کہ کے پی کے کی تنظیم بھی کیوں توڑنی مقصود تھی؟ کیا پارٹی نے بلدیاتی انتخابات میں ٹکٹ جاری کیے تھے؟ ٹکٹس کے لیے ایک بورڈ بنایا گیا تھا جس میں ایم این ایز اور ایم پی ایز شامل تھے انہوں نے ٹکٹ جاری کیے جب پارٹی نے ٹکٹ ہی جاری نہیں کیے تو پارٹی ہار کی ذمہ دار کیسے بن سکتی ہے؟ ‘
پی ٹی آئی کے سابق عہدیدار نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ’پوری دنیا کو پتا ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کو شکست صرف اور صرف بیڈ گورننس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ پارٹی عہدیداروں کی نااہلی سے نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ پنجاب میں بنائے گئے نئے دو صدور کے بارے میں ان کا خیال ہے تو ان کا کہنا تھا ’یہیں سے آپ اندازہ لگا لیں کہ وسطی پنجاب کے لیے شفقت محمود جیسے بابو کا انتخاب گیا ہے۔ اور ادھر جنوبی پنجاب میں خسرو بختیار کو بنایا گیا ہے جس کو تحریک انصاف کا ورکر جانتا ہی نہیں۔ اور اس شخص کو تحریک انصاف میں آئے صرف تین سال ہوئے ہیں۔‘
تحریک انصاف کے سابق اعلی عہدیدار سے جب یہ پوچھا گیا کہ ان کے نزدیک پارٹی توڑنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا ’جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے کہ پارٹی کو بری طرح شکست کے بعد ورکر جو کہ ابھی عمران خان کے ساتھ ہے اس کو کسی نہ کسی طرح سے جواب دینے کےلیے ایک غیر ضروری سرگرمی کی گئی ہے۔ کہ جیسے بہت بڑے پیمانے پے کچھ کیا جا رہا ہے اور پوری پارٹی توڑ دی۔ یہ سب دکھاوا ہے۔ اگر آپ کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے دکھاوا ہے تو میں آپ کو سمجھاتا ہوں۔‘

اسد عمر کو پی ٹی آئی کا نیا سیکریٹری جنرل بنا دیا گیا ہے (فوٹو: فیس بک)

انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا ’چلیں ڈویژن لیول اور ضلعی سطح پر آپ نے لوگوں کو عہدوں سے ہٹادیا دیا۔ نیچے تحصیل اور پھر یونین کونسل لیول پر تو بندہ ہی آپ کے پاس ایک ایک ہے۔ ان کو کیوں ختم کیا گیا؟ جب نئی پارٹی بنائی جائے گی تو تحصیل اور یونین کونسل لیول پر لوگ وہی ہوں گے جو سابقہ پارٹی میں تھے تو پھر نچلی سطح پر پارٹی توڑی کیوں گئی؟ ظاہر ہے کہ ورکروں میں صرف نمبر بنانے کے لیے کہ کچھ نظر تو آئے‘
پارٹی کی حالیہ صورت حال پر اردو نیوز نے وسطی پنجاب کے صدر شفقت محمود سےبھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دستیاب نہیں تھے۔ 
سیاسی تجزہ نگار بھی اس بات سے متفق دکھائی دیتے ہیں کہ حکمراں جماعت کی موجودہ تبدیلیاں صرف اپنا تشخص جاری رکھنے لئے ہیں ۔ پاکستان کے معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کے مطابق ’ہم نے تو سیاسی تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھا ہے کہ ایک صوبے میں شکست کا ملبہ باقی صوبوں پر ڈال دیا جائے جیسا کہ ابھی تحریک انصاف نے کیا ہے۔ بھئی اگر کے پی کے میں شکست ہوئی ہے تو اس میں پنجاب کی تنظیم کا کیا قصور ہے؟ سادہ سی بات ہے کہ آپ کے پاس کچھ نہ کچھ بتانے کے لیے ہونا چاہیے اور یہی ہو رہا ہے۔‘

شیئر: