Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جلسوں کی سیاست سے تحریک عدم اعتماد پر فرق نہیں پڑتا، پرویز الٰہی

پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف جوں جوں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا وقت قریب آرہا ہے، ملک میں سیاسی سرگرمیاں اور سیاسی ملاقاتیں زور پکڑ رہی ہیں۔ خاص طور پر حکومت نے اپنے اتحادیوں کو منانے کا فائنل راونڈ شروع کر رکھا ہے۔
حکمراں جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن اتحاد سڑکوں پر ہے اور 27 اور 28 مارچ کو اسلام آباد میں بڑے جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔
جہاں ایک طرف وزیراعظم عمران خان اپنے جلسے میں سرپرائز دینے کا اعلان کر چکے ہیں تو دوسری طرف کچھ دنوں کے وقفے کے بعد پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان گذشتہ 72 گھنٹوں میں دو سے تین اہم ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔
شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک کی مسلم لیگ ق کی قیادت سے ملاقات
آج تحریک انصاف کے اعلٰی سطح کے وفد نے لاہور میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں مسلم لیگ ق کی قیادت سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔ وفد میں وزیر دفاع پرویز خٹک بھی شامل ہیں۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں پرویز الہی نے کہا کہ ملک میں جاری سیاسی ڈرامے کا ابھی ڈراپ سین نہیں ہوگا، ڈرامے کے کردار تبدیل ہوں گے۔ 
انہوں نے کہا کہ جلسوں کی سیاست سے تحریک عدم اعتماد پر فرق نہیں پڑتا۔
پرویز الٰہی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اتحادی ہیں لیکن ہر اہم موقع پر نظر انداز کیا گیا۔
’حکومت کے ساتھ ساڑھے تین سال رہے لیکن اتحادی مشاورت میں کہیں شامل نہ تھے۔ اتحادی ہونے کے باوجود اپنے اپ کو اپوزیشن میں سمجھتے تھے۔ سالک کا حلقہ ہو یا طارق بشیر چیمہ کا انتخابات میں مخالف امیدواروں کی حمایت کی گئی۔‘
اس موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان اور ہمارے دل میں آپ کی بڑی عزت ہے۔ گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں اتحاد کی ڈور کو مضبوط سے مضبوط ہونا چاہیے۔‘

پرویز الٰہی کے مطابق اتحادی ہونے کے باوجود ہم موقع پر نظر انداز کیا۔ فوٹو: مسلم لیگ ق

مسلم لیگ ق کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، ملکی سیاسی صورتحال سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک نے وزیراعظم عمران خان کا پیغام مسلم لیگی قیادت کو پہنچایا جبکہ مسلم لیگ ق کے رہنما اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے ساڑھے تین سال میں پارٹی کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا اور ان کے حل کے لیے کافی کھل کر بحث کی۔
چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ ملاقات کے حوالے سے پارٹی صدر چودھری شجاعت حسین کو اعتماد میں لیں گے اور آئندہ ملاقات جلد اسلام آباد میں ہو گی۔
ملاقات میں مسلم لیگ ق کی قیادت سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کی جبکہ وفاقی وزرا میں مونس الٰہی اور طارق بشیر چیمہ بھی شامل تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے اگرچہ اپنے اتحادیوں کو منانے کے لیے رواں ماہ کے شروع میں لاہور میں چوہدری برادران اور پھر کراچی میں بہادرآباد کا دورہ کر کے ملاقاتیں کی تھیں لیکن ان ملاقاتوں کے بعد ان اتحادیوں کی اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کافی حد تک آگے بڑھ چکی ہے۔ چوہدری شجاعت، پرویز الہٰی اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے بیانات حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
وزیراعظم نے جی ڈی اے اور بی اے پی کے رہنماؤں سے منسٹرز انکلیو اور پارلیمنٹ لاجز میں ہی ملاقاتیں کی تھیں جس کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اور وہ اپنے ارکان سے ملنے میں مصروف ہوگئے۔

وزیراعظم نے مارچ کے شروع میں چوہدری برادران سے ملاقات کی تھی۔ فوٹو: سوشل میڈیا

23 مارچ کو جب وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا تو اسی دن حکومت اور اتحادیوں میں بالمشافہ رابطے بحال ہوئے۔ سپیکر اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں تحریک انصاف کے وفد نے ایم کیو ایم کی قیادت سے ملاقات کی۔
اس سے اگلے ہی دن ایم کیو ایم زرداری ہاؤس میں پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملی تو ایک بار پھر یہ خبریں سامنے آئیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں معاملات طے پا چکے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اس کی تصدیق یا تردید تو نہیں کی۔
گذشتہ روز وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں حکومتی وفد ایک بار پھر ایم کیو ایم سے ملنے پہنچا تھا۔
اس ملاقات کے بعد شاہ محمود قریشی نے اپنے بیان میں کہا کہ ’خیر سگالی کا پیغام لے کر ایم کیو ایم پاکستان کے پاس گئے تھے۔ پیغام تھا آپ ہمارے دوست ہیں ساتھ چلتے رہیں گے۔ ایم کیو ایم وفد کے ساتھ خوش گوار ماحول میں بات ہوئی جو مثبت اور مفید رہی۔ وفد ہمارا پیغام ایم کیو ایم پاکستان قیادت تک پہنچائے گا۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ’ایم کیو ایم وفد نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ وہ غلط بیانی کررہی ہے۔‘
خیال رہے کہ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہ زیب خانزادہ‘ کے ساتھ میں کہہ چکے ہیں کہ ’ہمیں حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کش کی گئی ہے۔‘

شاہ محمود قریشی کی قیادت میں وفد نے ایم کیو ایم سے ملاقات کی تھی۔ فوٹو: روئٹرز

انہوں نے پہلی بار یہ کہا کہ ’اگر مسلم لیگ ق سے ہٹ کر بھی فیصلہ کرنا پڑا تو ہمارا جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہوگا۔‘
دوسری جانب کافی دنوں سے خاموش چوہدری برادران کو منانے کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے فائنل راؤنڈ میں لاہور جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعے کی شب انہوں نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی سے فون پر بات چیت کی اور سنیچر کو دو بجے لاہور میں ملاقات طے پائی ہے۔
خیال رہے کہ ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی دیگر رہنماؤں کے ساتھ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں جو حکومتی رہنماؤں اور پیپلز پارٹی کی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ ایم کیو کے ایم کے وفاقی وزیر امین الحق کی جانب سے جمعے کو یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ایم کیو ایم آئندہ 48 گھنٹوں میں اپنے فیصلے کا اعلان کردے گی جس میں سے 20 گھنٹے گزر چکے ہیں۔

شیئر: