Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قیادت کے نقصان کے باوجود داعش کا خطرہ بڑھ رہا ہے: اقوام متحدہ

ولادیمیر وورونکوف کے مطابق داعش کے بڑھنے کا رجحان جزوی طور پر اس گروپ کی جانب سے ایک غیر مرکزی داخلی ڈھانچے کو اپنانے کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ علاقائی سطح پر شکست اور قیادت کے خاتمے کے باوجود داعش کی جانب سے خطرہ بدستور برقرار ہے۔
اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ داعش سے وابستہ افراد بدامنی کو بھڑکانے اور دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے تنازعات اور سماجی عدم مساوات کو اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔
’وبائی امراض سے متعلق پابندیوں اور ڈیجیٹل سپیس میں تبدیلی نے گروپ کو اپنی بھرتی کی کوششوں کو تیز کرنے اور مزید فنڈز حاصل کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں، اور پچھلے ایک سال سے یہ تیزی سے حملوں میں ڈرون کا استعمال کر رہا ہے، جیسا کہ شمالی عراق میں دیکھا گیا ہے۔‘
انسداد دہشت گردی کے انڈر سیکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے دفتر کے سربراہ ولادیمیر وورونکوف نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ داعش کے بڑھنے کا رجحان جزوی طور پر اس گروپ کی جانب سے ایک غیر مرکزی داخلی ڈھانچے، جس میں’صوبوں کے جنرل ڈائریکٹوریٹ‘ اور متعلقہ ’دفاتر‘ قائم کیے گئے، کو اپنانے کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مرکزی، جنوبی اور مغربی افریقہ سے لے کر یورپ اور افغانستان تک دنیا بھر میں دہشت گردی کی کارروائیوں کو منظم کرنے اور ان کی مالی معاونت کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، اور یہ واضح کرتے ہیں کہ دہشت گرد گروپ کے طویل مدتی اہداف اور خواہشات ہیں۔
وورونکوف نے کہا ’اس ڈھانچے کو بہتر طریقے سے سمجھنا اور مسلسل نگرانی داعش کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسے روکنے کے لیے ناگزیر ہے۔‘

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ علاقائی شکستوں اور قیادت کے ختم ہونے کے باوجود کورونا وبا کے آغاز کے بعد سے داعش کی طرف سے لاحق خطرہ بڑھ رہا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

وہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے جس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی 15 ویں رپورٹ پر بات چیت کی گئی۔ رپورٹ میں داعش کی طرف سے بین الاقوامی امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ یہ خطرہ خاص طور پر تنازعات والے علاقوں میں زیادہ ہے۔ تاہم خبردار کیا گیا ہے کہ یہ جلد ہی مزید مستحکم علاقوں میں پھیل سکتا ہے جہاں انتہا پسند گروپ اور اس سے وابستہ افراد ’خوف کو بھڑکانے اور طاقت کو فروغ دینے‘ کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ ’سیکیورٹی خلا اور (خراب) حالات کو بھرتیوں اور دہشت گردی کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کر رہے ہیں تاکہ پیچیدہ حملوں کو منظم طریقے سے انجام دیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صورتحال عالمی معیشت کی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ حکومتوں کی جانب سے ان سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کے باعث مزید خراب ہوئی ہے۔
داعش کو عراق اور شام میں اپنے کئی اہم رہنماؤں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے، بشمول شام میں اس گروپ کے رہنما مہر الاگل کے جو امریکی فوج کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
تاہم، ان نقصانات کے باوجود اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عراق اور شام میں ’گروپ یا اس کی کارروائیوں کی سمت میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔‘

شیئر: