Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آپریشن مڈنائٹ جیکال، بے نظیر حکومت کے خلاف سازش کیسے بے نقاب ہوئی؟

ٓآپریشن مڈنائٹ جیکال کا مقصد بے نظیر بھٹو کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
’بے نظیر بھٹو نے میجر جنرل (ریٹائرڈ) نصیراللہ  بابر کو میرے پاس بھیجا جو مڈنائٹ جیکال کے نام سے ایک انکوائری لے کر آئے تھے۔ اس میں آئی ایس آئی کے دو افسران بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کا ساتھ دیا ہے۔ ان کا فل کورٹ مارشل ہونا چاہیے۔‘
پاکستانی افواج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے مذکورہ واقعہ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں بیان کیا ہے۔
ستمبر 1989 کے آخری ہفتے میں اس وقت کی وزیراعظم پاکستان بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔
ایوان میں تبدیلی کے جمہوری طریقہ کار کے مطابق یہ تحریک 12 ووٹوں سے ناکام ہوئی مگر اسمبلی کے فلور پر حکومتی تبدیلی کی یہ کوشش اپنے پس منظر میں اور پس پردہ غیر جمہوری مہم جوئی کی ایک ڈرامائی داستان  رکھتی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’آپریشن مڈ نائٹ جیکال‘ مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی کی سیاسی وفاداریاں خریدنے کی کوششوں کو بے نقاب کرنے کے لیے کیا گیا خفیہ آپریشن تھا۔
ستمبر 1989 میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس کی گونج سنائی دی جانے لگی۔ اس کے کرداروں کے خلاف کارروائی اور دیگر شواہد اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کو عدم استحکام سے دوچار کرنا اور ان کے مخالفین کو سیاسی طور پر مضبوط کرنا مبینہ سازش کا مقصد تھا۔

خفیہ آپریشن میں کیا ہوا تھا؟

پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی رشید بھٹی اور عارف اعوان کو راولپنڈی میں ویسٹریج کے ایک مکان میں بلایا گیا جہاں اسلامی جمہوری اتحاد کے ممبر اسمبلی ملک نعیم اور فاٹا سے رکن پارلیمنٹ حاجی شیر گل بھی موجود تھے۔
ان ارکان کو حکومت کو کمزور کرنے اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کے ایک منصوبے میں تعاون کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
یکے بعد دیگرے کی گئی میٹنگز میں منصوبے کی جزئیات اور اس کے لیے درکار مالی وسائل پر بھی ممبران کو بریف کیا گیا۔
ان خفیہ ملاقاتوں کے میزبان کا نام ملک ممتاز تھا جو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینیئر افسر بھی تھے۔

اپوزیشن لیڈر نواز شریف نے بریگیڈیئر امتیاز کو گرفتار کرنے کی مخالفت کی تھی. (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ان خفیہ ملاقاتوں کے میزبان کا نام ملک ممتاز تھا جو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینیئر افسر بھی تھے۔
ان کی دوستی اس دور میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ایک سینیئر افسر مسعود شریف خٹک سے بھی تھی۔ شاید اسی لیے ان ملاقاتوں اور منصوبوں کی بھنک آئی بی کو بھی پڑگئی۔
آئی بی نے ان ملاقاتوں کی خفیہ ریکارڈنگ شروع کر دی اور پیپلز پارٹی کے رہنما میجر جنرل ریٹائرڈ نصیراللہ بابر کے ذریعے ان سرگرمیوں کی 12 آڈیو اور ویڈیو ٹیپس وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو پیش کی گئیں۔
آپریشن مڈنائٹ جیکال کے ذریعے حاصل کردہ ثبوت اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے علم میں لائے گئے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اپنی خود نوشت ’ڈاٹر آف دی ایسٹ‘ میں اس واقعے کے بارے میں لکھتی ہیں کہ دونوں افسروں نے ان کی پارٹی کے ممبران سے متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔
ایسی ہر ملاقات میں وہ اپنے پسندیدہ فقرے مخاطب کے سامنے بار بار دہراتے تھے کہ بے نظیر بھٹو کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ امریکہ ان کا حامی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ پاکستانی فوج بھی انہیں پسند نہیں کرتی۔ جب وہ اقتدار سے باہر ہو جائیں گی تو ان کا شوہر بھی انہیں چھوڑ دے گا۔

 نصیراللہ  بابر، اسلم بیگ کے پاس مڈنائٹ جیکال کے نام سے ایک انکوائری لے کر گئے تھے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سازش کے کرداروں کے خلاف کارروائی

پاکستانی آرمی کی تاریخ پر مبنی کتاب Cross Sword کے مصنف شجاع نواز کے مطابق دونوں افسروں کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر فوج سے برطرف کر دیا گیا۔
اسلم بیگ کے مطابق انہوں نے مذکورہ افسروں کے خلاف رپورٹ پڑھی جس میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لیے شہادتیں ناکافی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے سمری اختیارات کے تحت ان کے ٹرائل کا فیصلہ کیا۔ ان دونوں کو قبل از وقت سروس سے ریٹائر کر دیا گیا۔
پیپلز پارٹی مذکورہ افسروں کے کورٹ مارشل کی پُرجوش حامی تھی۔ 1993 میں بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ اقتدار میں آئیں تو یہ معاملہ از سر نو کھولا گیا۔
سنہ 1994 میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ امتیاز کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے پبلک ٹرائل کا مطالبہ ہونے لگا۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں محمد نواز شریف نے اس گرفتاری کی مذمت کی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ 1993 میں بننے والی نواز شریف کی حکومت کے دوران بریگیڈیئر امتیاز کو آئی بی میں ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تھا۔ اسی طرح میجر ریٹائرڈ عامر ایف آئی اے میں ڈائریکٹر امیگریشن کے عہدے پر فائز رہے۔

آرمی چیف مرزا اسلم بیگ نے بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر کو قبل از وقت سروس سے ریٹائر کر دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

نواز شریف کے ہی دور حکومت میں ستمبر 1992 میں سلمان تاثیر نے مبینہ منصوبے کی آڈیو ٹیپس کی تفصیل صحافیوں کو مہیا کی تھی جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ نواز شریف بھی ان ملاقاتوں میں شریک ہونے پر راضی تھے مگر زاہد سرفراز کے منع کرنے پر انہوں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔
اپریل 2009 میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ میجر ریٹائرڈ عامر نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔
اس خبر کو ماضی کے واقعات کے تناظر میں ایک سیاسی انہونی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس وقت کے صدر مملکت کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کسی بھی ملاقات کی سختی سے تردید کی تھی۔
مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومت کے خاتمے کی سازش میں ملوث ہونے کے حوالے سے میجر ریٹائرڈ عامر نے ایک انٹرویو میں اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ان کا مقصد حکومتی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں کی نشان دہی کرنا تھا۔ انہوں نے حکمران جماعت کے ممبران اسمبلی پر نظر رکھنے کے لیے اس طرح کی ملاقاتوں کا اہتمام کیا تھا۔‘

میجر ریٹائرڈ عامر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ان کا مقصد حکومتی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں کی نشان دہی کرنا تھا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس منصوبے کو منظرعام پر لانے میں شریک رہنے والے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر مسعود شریف خٹک نے مذکورہ سازش کے بارے میں کہا تھا کہ ’دونوں افسروں کی آڈیو ویڈیو ٹیپس اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ ممبران اسمبلی کو بے نظیر بھٹو کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اُکسا رہے تھے۔‘
ہماری تاریخ  کے اس ڈرامائی سیاسی واقعے کی مزید تفصیلات معلوم کرنے کے لیے اردو نیوز کے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود مسعود شریف خٹک نے اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا اور کسی سوال کا جواب نہیں دیا۔  

شیئر: