Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مریم نواز کا پاسپورٹ واپس،’تین سال بغیر کسی کیس کے ضبط رکھا گیا‘

مریم نواز کا پاسپورٹ چار سال قبل عدالت کے پاس رکھوایا گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ہائیکورٹ نے مسلم لیگ ن  کی نائب صدر مریم نواز کا پاسپورٹ واپس کردیا ہے۔ 
پیر کو لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ نے جس کی سربراہی چیف جسٹس امیر بھٹی کر رہے تھے نے  مریم نواز کی پاسپورٹ واپسی کی درخواست قبول کرتے ہوئے ان کا پاسپورٹ واپس کرنے کا حکم جاری کیا۔  
مریم نواز کے پاسپورٹ واپسی کے لیے اس سے پہلے چار ججوں سے درخواست سننے سے انکار کردیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے پاسپورٹ واپس لینے کی درخواست اپریل میں اس وقت دائر کی جب مسلم لیگ ن اور اتحادیوں نے حکومت سنبھالی تھی۔تاہم اس وقت ایک ایسی صورت حال پیدا ہوئی جس میں تین مرتبہ مختلف ججز نے ان کا کیس سننے سے معذرت کی تھی۔ 
پہلا بینچ جسٹس انوارالحق پنوں اور جسٹس سید شہباز علی رضوی پر مشتمل تھا۔ اس بینچ کے جسٹس سید شہباز علی رضوی نے یہ کیس سننے سے معذرت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اس درخواست کو وہی بینچ سنے جس نے پہلے ضمانت کی درخواست سنی تھی، فائل واپس چیف جسٹس منیر بھٹی کو بھیج دی گئی۔ 
چیف جسٹس نے کیس دوبارہ ایک نئے دو رکنی بینچ کو بھیج دیا جو جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل تھا۔ 
لیکن جیسے ہی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو بینچ سربراہ جسٹس علی باقر نے یہ ریمارکس دیے کہ ان کے ساتھی جج یہ کیس سننا نہیں چاہتے اس لیے یہ فائل واپس چیف جسٹس صاحب کو جا رہی ہے۔ 
تیسری مرتبہ اس درخواست کی سماعت کے لیے نیا بینچ بنا جس کی سربراہی جسٹس علی باقر نجفی نے کی جبکہ ان کے ساتھ جسٹس اسجد گھرال شامل تھے۔ تاہم کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس اسجد گھرال نے اپنے آپ کو اس کیس سے الگ کر لیا۔ 
تین ججز نے انکار اور تین بینچ ٹوٹنے کے بعد مریم نواز نے لاہور ہائیکورٹ سے اپنی درخواست واپس لے لی تھی جس کے بعد انہوں نے چار مہینے گزرنے کے بعد دوبارہ درخواست دائر کی ہے جسے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس انوارالحق پنوں پر مشتمل بنچ  کے سامنے لگایا گیا تاہم انہوں نے بھی کیس سننے سے معذرت کر لی ۔  
ستمبر کے مہینے میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ امیر بھٹی نے اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا جس نے بالاخر اس درخواست کی سماعت کی۔  دیگر ججوں میں جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس طارق سلیم شیخ شامل تھے۔   
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ’مریم نواز کو تین سال بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ یہ اچھی بات ہے کہ عدالت نے انصاف کر دیا  لیکن یہ انصاف بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ قانون کا سہارا لیا۔ اس سوال  کا جواب کسی کے پاس نہیں کہ مریم نواز کا پاسپورٹ اتنا عرصہ کیوں رکھا گیا اور ججز نے کیوں مختلف وقتوں میں کیس سننے سے انکار کیا۔‘  
مریم نواز کی ملک سے باہر روانگی سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا بنیادی حق ہے اور اس کا فیصلہ بھی وہ ہی کریں گی۔ ’میں تو یہی کہوں گا کہ انہیں اپنے والد سے ملنے جانا چاہیے ۔ جن لوگوں نے انہوں ملنے سے پہلے روک رکھا تھا اب ان کی خواہشات ادھوری رہ گئی ہیں۔ ‘
مریم نواز نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک نئی درخواست دائر کی تھی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ ان کا پاسپورٹ واپس کیا جائے جو چار سال قبل ضمانت کے طور پر اسی عدالت میں رکھوایا گیا تھا۔
مریم نواز نے اپنی نئی درخواست میں کہا تھا کہ چار سال قبل جس مقدمے میں نیب نے انہیں گرفتار کیا اس میں آج تک نہ تو ان پر کوئی فرد جرم عائد کی گئی اور نہ ہی اس کیس کا ٹرائل شروع ہوا۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کو اگست 2019 میں چوہدری شوگر ملز کیس میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ جیل میں اپنے والد اور پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات کر رہیں تھیں۔
مریم نواز 48 دن اس کیس میں نیب کی حراست میں رہیں تھیں جس کے بعد انہیں جیل بھیج دیا گیا تھا۔
بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے انہیں ضمانت بعد از گرفتاری میں رہا کیا تاہم انہوں نے عدالتی حکم کے مطابق سات کروڑ روپے نقد اور اپنا پاسپورٹ ڈپٹی رجسٹرار کے پاس رکھوا دیا تھا۔
 

شیئر: