Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رشتہ رکوانے کے لیے بچے کا گلا کاٹنے والے تک پولیس کیسے پہنچی؟ 

قتل ہونے والے بچے کا تعلق لاہور کے علاقے بادامی باغ سے تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں پولیس ایک پانچ سالہ بچے کے اغوا اور پھر اندھے قتل کے ملزم کو بالآخر گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ ملزم نے اس لرزہ خیز واردات سے متعلق انتہائی خوفناک تفصیلات پولیس کی بتائی ہیں۔
لاہور کے علاقے بادامی باغ کے علاقے میں یہ ایک عام سا دن تھا۔ ریل کی پٹڑی پر غمگین حالت میں بیٹھے ہوئے ایک ادھیڑ عمر شخص نے اپنے دماغ میں ہی ایک فیصلہ کیا اور ریل کی پٹڑی سے اٹھ کر آبادی کی طرف آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیا۔ 
یہ اکتوبر کا آخری ہفتہ تھا۔ اس ادھیڑ عمر شخص کا نام ذیشان عرف گڈو ہے۔ اس نے محلے میں جا کر ایک گھر کے باہر گلی میں ٹہلنا شروع کر دیا اور کسی چیز کا انتظار کرنے لگا۔ سہ پہر چار بجے اس کا انتظار ختم ہوا جب ایک گھر سے پانچ سالہ بچہ ایان باہر نکلا۔ 
ذیشان نے بچے کو آواز دی۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ بچہ پہلے سے ہی اس شخص کے ساتھ مانوس ہے۔
بچہ دوڑ کر اگیا تو ذیشان اس کو ساتھ لے کر ایک دکان میں گیا اور ایان کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر دیں۔ اس کے بعد اس کو ساتھ لے کر واپس ریل کی پٹڑیوں کی طرف چل پڑا۔ 
شام کا وقت شروع ہوتے ہی ایان کے گھر والے اسے ڈھونڈنے نکلے لیکن وہ نہیں ملا۔ پولیس کو اطلاع کر دی گئی اغوا کی ایف آر بھی درج ہو گئی لیکن پولیس کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ 
اس مقدمے کے تفتیشی افسر اخترعلی نے پورے علاقے کی چھان بین کی تو ایک دو جگہوں پر انہیں سی سی ٹی وی کیمرے نظر آئے۔ کئی گھنٹوں کی فوٹیج کو دیکھنے کے بعد ایان کے کپڑوں سے اس بات کی شناخت ہوگئی کہ اس کو ایک ادھیڑ عمر شخص اپنے ساتھ لے جا رہا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اخترعلی نے بتایا کہ ’ان سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کی کوالٹی بہت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ اس شخص کے خدوخال کچھ جانے پہچانے بھی لگ رہے تھے۔ لیکن کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ اور پھر کئی دنوں کی لگا تار تحقیق کے بعد ہر پہلو کو پرکھا تو ایک سرا ہاتھ آیا۔‘

مجرم ذیشان کا بچے کے گھر آنا جانا تھا۔ فائل فوٹو: لاہور

انہوں نے بتایا کہ فوٹیج میں نظر آنے والے شخص سے ملتا جلتا ایک شخص اس رات پولیس کے ساتھ مل کر ایان کو تلاش کرتا رہا تھا۔ اس شخص ذیشان کی تلاش شروع کی تو پتا چلا وہ اپنا موبائل بند کر کے غائب ہو گیا ہے۔ لیکن جلد ہی اس کو ٹریس کر لیا گیا اور حراست میں بھی لے لیا۔ 

قتل کی لرزہ خیز داستان

ذیشان نے پولیس تفتیش میں بتایا کہ چار بجے کے قریب پانچ سالہ ایان کو لے کر ریل کی پٹڑی کی طرف نکل گیا تھا۔
ایس ایس پی انوسٹیگیشن حسنین حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی کہ یہ شخص تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ بچے کے ساتھ کھیلتا رہا۔ ’جیسے ہی تھوڑا سا اندھیرا ہوا تو اس نے ایان کے ہاتھ پاؤں باندھ کے قریب جھاڑیوں میں پھینک دیا اور واپس آگیا۔‘ 
انہوں نے بتایا کہ اس وقت تک بچے کو ڈھونڈنے کا عمل شروع ہو چکا تھا اور یہ ساتھ مل کر اسے ڈھونڈتا رہا۔
حسنین حیدر کے مطابق ’رات تقریباً 10 بجے کے قریب یہ واپس گیا۔ بچے کے ہاتھ پاؤں کھولے اور اسے کہا کہ آؤ گھر چلتے ہیں۔ بچہ اس کے ساتھ ساتھ پٹڑی کے اوپر چلنا شروع ہو گیا۔ اس کے پاس ایک چھری تھی اس نے بچے کی گردن پر پھیر دی۔ بچہ گرا تو یہ چھری پھینک کر تیز تیز چلنے لگا۔‘
’تھوڑی دور جانے کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا تو ایان دوبارہ کھڑا ہو کر آہستہ آہستہ چلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیونکہ اس کی چھری کند تھی۔ بچے کو زیادہ گہرا زخم نہیں آیا تھا۔ اس بات سے ذیشان پینیک ہو گیا۔ یہ واپس ایان کی طرف بھاگا اور اسے اٹھا کر پٹڑی پر پھینکا اور پھر اس کے سر کو پٹخا جس سے بچے کی موت واقع ہوگئی۔ یہ ساری چیزیں پوسٹ مارٹم سے ثابت ہو چکی ہیں۔‘

پولیس کے مطابق قاتل محلے والوں کے ساتھ بچے کو تلاش کر رہا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ذیشان نے لاش وہیں پھینکی اور محلے میں آکر دوبارہ تلاش شروع کر دی۔ اس وقت تک پولیس بھی آچکی تھی اور اغوا کا مقدمہ بھی درج ہوچکا تھا۔ 

قتل کیا ہی کیوں؟ 

مقدمے کے تفتیشی افسر اختر علی نے جب ذیشان کو حراست میں لیا تو ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی صورت حال ساری واضح ہو چکی تھی۔ ایس پی انوسٹیگیشن سٹی عثمان ٹیپو نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ذیشان عرف گڈو ایان کی خالہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اس کا پہلے بھی اس گھر میں آنا جانا تھا یہی وجہ تھی کہ ایان اس شخص سے مانوس تھا اور بلاجھک بلانے پر ساتھ چلا گیا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ خاتون کی شادی اس کے اپنے کزن سے طے ہو چکی تھی۔ 26 اکتوبر کو نکاح کی رسم ہونا تھی ایک روز قبل ہی ذیشان نے اس شادی کو روکنے کا منصوبہ بنایا کہ اگر بچے کو مار دیا جائے تو شادی رک جائے گی۔
’اس نے دو تین مرتبہ اپنا ارادہ ترک بھی کیا لیکن بالاخر اس نے جرم کر دیا۔ بچے کے اغوا اور پھر لاش ملنے کے بعد یہ شادی روک دی گئی تھی۔‘
پولیس کے مطابق دونوں خاندان ہی انتہائی غریب ہیں۔ ذیشان کی عمر 40 سال کے قریب ہے اور وہ رکشہ چلانے کے ساتھ ساتھ اناج کے اڈے پر مزدوری بھی کرتا ہے۔ ذیشان کے تین بچے ہیں جبکہ ان کی پہلی بیوی طلاق لے کر جا چکی ہیں۔
ملزم اعتراف جرم کے بعد اس وقت جیل میں ہے اور پولیس کیس کی تفتیش مکمل کر کے چلان جمع کروانے کی تیاری کر رہی ہے۔  

شیئر: