Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ملزم کی سکیورٹی کیلئے ججوں کو روکا گیا

استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے مشرف کی حب الوطنی پر سوال نہیں اُٹھایا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ 31 مارچ 2014 کی ایک روشن صبح تھی اور دن معمول سے زیادہ گرم ثابت ہو رہا تھا۔
اسلام آباد کے ریڈ زون میں وزیراعظم کے دفتر کے عقب میں واقع نیشنل لائبریری کے آڈیٹوریم میں قائم خصوصی عدالت تک پہنچنے کے لیے جگہ جگہ رینجرز اور پولیس کی چیک پوسٹوں اور تعینات بھاری نفری کے درمیان سے گزرنا پڑ رہا تھا۔
خصوصی عدالت کے آس پاس خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار کسی بھی خطرے کی بُو سونگھتے پھر رہے تھے۔
سوا نو بجے معلوم ہوا کہ سنگین غداری کے مقدمے کے ملزم پرویز مشرف کی عدالت میں پیشی ضرور ہو گی۔ اس سے قبل دو جنوری کو جب اُن کو عدالت میں لایا جا رہا تھا تو اُن کے سینے میں درد اُٹھا اور وہ راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں داخل ہو گئے۔
اس طرح تین ماہ کی تاخیر سے سابق فوجی صدر سنگین غداری کے مقدمے میں فردِ جرم سُننے کے لیے عدالت آئے۔
نو بج کر 23 منٹ پر سخت سکیورٹی کے حصار پرویز مشرف کی گاڑی خصوصی عدالت کے احاطے میں پہنچی۔ بُلٹ پروف لینڈ کروزر این ایکس 171 رُکی تو اس پر لگے جیمرز کی وجہ سے سب کے فون سگنلز بند ہو گئے۔ گاڑی سے ملزم کے وکیل فروغ نسیم پہلے نکلے۔
رینجرز اور خفیہ ایجنسیوں کے سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے گاڑی کو چاروں طرف سے حصار میں لیا ہوا تھا۔
پرویز مشرف لینڈ کروزر سے اُترے تو ہلکے بھورے رنگ کے کُرتا شلوار میں تھے جس پر گہرے نیلے رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔
اُن کے ساتھ چلتے سکیورٹی اہلکار عقابی نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔
عدالت میں اُن کے لیے کٹہرے کے ساتھ کرسی رکھی گئی تھی جہاں اُن کے وکلا بات چیت کر رہے تھے۔
اس دوران معلوم ہوا کہ ملزم کو عدالت پہنچانے کے لیے سکیورٹی انتظامات کے باعث ججوں کو بھی شاہراہِ دستور پر روکنا پڑا اور اُن کو عدالت پہنچنے میں تاخیر ہوئی۔
ججز کی آمد پر مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو پرویز مشرف کی جانب سے ایڈووکیٹ فروغ نسیم روسٹرم پر گئے اور عدالت کو آگا کیا کہ وہ اس کیس میں ملزم کے نئے وکیل ہیں اور اپنا وکالت نامہ جمع کرا رہے ہیں۔
اس کے بعد فروغ نسیم نے کہا کہ ملزم کی والدہ دبئی میں اور وہ علیل ہیں جن کو دیکھنے کے لیے پرویز مشرف نے جانا ہے۔ عدالت سے استدعا کی گئی کہ والدہ کی عدالت کے لیے جانے کی اجازت دی جائے۔
وکیل نے مزید کہا کہ وہ پرویز مشرف کی بیماری کی ایک رپورٹ بھی عدالت میں پیش کر رہے ہیں جس کو خفیہ رکھنے کی استدعا ہے۔ ’بیماری کا علاج بیرونِ ملک ہی ممکن ہے۔ پہلے بھی وہیں ڈاکٹر سے علاج کراتے رہے ہیں۔‘
خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ عدالت نے ملزم کی گرفتاری کا حکم نہیں دیا، اور یہ کہ انہوں نے خود اپنے علاج کے لیے ہسپتال چُنا۔
فروغ نسیم نے کہا کہ پرویز مشرف ابھی صرف ملزم ہیں، اُن پر تین نومبر کی ایمرجنسی لگانے اور ججز کو نظربند کرنے کا جُرم ثابت نہیں ہوا۔
جسٹس فیصل عرب مسکرائے اور کہا کہ ’اس مقدمے کی 35 سماعتیں ہو چکی ہیں، ملزم کے کسی وکیل کی جانب سے یہ دلیل پہلی بار سُن رہے ہیں جبکہ عدالت پہلے دن سے یہی بات کہہ رہی ہے۔‘
اس کے بعد ججز نے مشاورت کی اور فردِ جرم سنانے کے لیے ملزم کو کھڑے ہونے کا کہا۔
پرویز مشرف کھڑے ہوئے تو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی جج طاہرہ صفدر نے پانچ الزامات پر مشتمل فردِ جرم پڑھ کر سنائی۔
ہر الزام کے جواب میں پرویز مشرف نے انگریزی میں کہا کہ وہ قصور وار نہیں اور تسلیم نہیں کرتے۔
اس کے بعد عدالت کے رجسٹرار نے فرد جرم پر ملزم سے دستخط کرائے تو پرویز مشرف نے کہا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔
اجازت ملنے پر سابق فوجی حکمران نے 25 منٹ اپنی حکومت کے کام اور ملٹری کارنامے گنوائے۔ پہلے سات منٹ اردو اور پھر 18 منٹ انگریزی میں بولتے رہے اور کے لیے نوٹس کا سہارا لیا۔
پرویز مشرف کا ایک اعتراض ’سنگین غداری‘ کے لفظ پر تھا۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی میں ’ہائی ٹریژن‘ پھر بھی کچھ بہتر ہے مگر اردو میں اپنے لیے سنگین غداری اُن کو عجیب لگتا ہے۔
پرویز مشرف کی عدالت تقریر ختم ہونے کے بعد استغاثہ کے سربراہ اکرم شیخ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ’ہم بیرونی زبان کا شکار ہیں۔ مشرف خود اہل زبان ہیں۔ ہم یہاں غداری نہیں آئین شکنی کا مقدمہ چلا رہے ہیں۔
استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے مشرف کی حب الوطنی پر سوال نہیں اُٹھایا۔
عدالت یہ کہتے ہوئے اُٹھ گئی کہ ملزم کی بیرون ملک جانے کی اجازت کی درخواست پر شام کو فیصلہ جاری کیا جائے گا۔
ججز کے جانے کے بعد استغاثہ کے سربراہ اکرم شیخ اپنی جگہ سے اُٹھ کر ملزم پرویز مشرف کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ ’میں آپ سے تعصب نہیں رکھتا۔‘
پرویز مشرف نے جواب دیا کہ ’پھر آپ نے میرے بیرون ملک جانے کی درخواست کی مخالفت کیوں کی؟‘ اس کے بعد وہ اکرم شیخ کو ’گُڈ لک‘ کہتے ہوئے اپنے سکیورٹی حصار میں عدالت سے نکل گئے۔
دن گیارہ بجے ختم ہونے والی سماعت کا فیصلہ شام ساڑھے پانچ بجے جاری کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا اختیار صرف وفاقی حکومت ہے جس نے ملزم کا نام ایگزٹ کنٹرول فہرست (ای سی ایل) میں شامل کیا ہے۔

شیئر: