Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی جیل میں طویل ترین بھوک ہڑتال کے بعد فلسطینی رہنما کا انتقال

غزہ میں فلسطین کے شدت پسندوں نے جنوبی اسرائیل کے گنجان آباد علاقے میں 22 راکٹ فائر کیے (فوٹو: اے پی)
فلسطینی شدت پسند گروہ اسلامک جہاد کے معروف رہنما کی اسرائیلی جیل میں تقریباً تین مہینے تک بھوک ہڑتال کرنے کے بعد موت واقع ہو گئی جس کے بعد غزہ کی پٹی سے راکٹ داغے گئے۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق خضر عدنان نے اسرائیل کی جانب سے کسی قانونی کارروائی کے بغیر فلسطینیوں کی بڑی تعداد کو جیلوں میں قید کرنے کے خلاف احتجاجاً انفرادی طور پر بھوک ہڑتال کرنے کا رجحان متعارف کروایا تھا۔ منگل کو اسرائیل کی حراست میں یہ 45 سالہ فلسطینی ہلاک ہو گئے۔
اس کے ردعمل میں غزہ میں فلسطین کے شدت پسندوں نے جنوبی اسرائیل کے گنجان آباد علاقے میں 22 راکٹ فائر کیے جس کے بعد اسرائیل کی ریسکیو سروس نے تین افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی اور بتایا کہ تینوں افراد غیرملکی ہیں۔
حماس کی قیادت میں قائم فلسطینی شدت پسند گروپوں کے اتحاد نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اس گھناؤنے جرم کے جواب میں ردعمل کی ابتدا ہے۔‘
فلسطینیوں نے اس کے بعد مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ہڑتال کی اور مظاہرین نے مقبوضہ علاقے میں اسرائیلی کے چیک پوائنٹس پر اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ جبکہ اسرائیلی فورسز نے مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور ربڑ کی گولیاں فائر کیں۔
منگل کی صبح غزہ سے فلسطینی شدت پسندوں نے ایک مرتبہ پھر راکٹوں سے حملہ کیا جو اسرائیل کے خالی میدانوں میں گرے۔ اسلام جہاد نے کہا کہ ’لڑائی جاری ہے اور بند نہیں ہو گی۔‘
فلسطینی قیدیوں کی نگرانی کیبنٹ منسٹر اتمار بین گوئر کرتے ہیں جنہوں نے فلسطینی قیدیوں پر پابندیاں لگائیں جن میں ان کے نہانے کے وقت کو کم کرنا اور جیل میں بیکریوں کو بند کرنا شامل ہے۔
انہوں نے منگل کو کہا کہ ’حکام کو بھوک ہڑتال اور بدنظمی پیدا کرنے والے قیدیوں کے خلاف صفر برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔‘ انہوں نے حکم دیا کہ قیدیوں کو ان کی کوٹھریوں میں بند رکھا جائے۔

شیئر: