Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میڈ اِن پاکستان‘ کی جگہ درآمد شدہ بسیں، ٹرانسپورٹ کی صنعت کی تباہی؟

پاکستان میں بسیں تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہینو پاک ہے۔ (فوٹو: ڈان نیوز)
سندھ سمیت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بہتر بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ شہروں میں چلنے والی خستہ حال بسوں اور چنگ چی رکشوں کے متبادل کے طور پر معیاری اور لگژری بسیں سڑکوں پر لائی گئی ہیں۔ یہ تمام بسیں بیرون ممالک سے درآمد کی گئی ہیں، اور اب مختلف روٹس پر چلتی نظر آرہی ہیں، جن میں لاکھوں افراد روزانہ سفر کرتے ہیں۔
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق، رواں مالی سال میں جولائی 2023 سے اپریل 2024 کے دوران تقریباً 13 ارب روپے مالیت کی بسیں، ٹرک اور دیگر ہیوی وہیکل گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔
پاکستان میں بسیں تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہینو پاک میں دو دہائیوں تک خدمات سر انجام دینے والے سید ارشد علی کا کہنا ہے کہ ‘پاکستان پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ سڑکوں پر جدید بسیں چلتی نظر آرہی ہیں جن میں سفر کر کے مسافر بھی خوش ہوتے ہیں۔ ان بسوں میں کمی ہے تو اس ایک جملے کی جسے دیکھ کر کبھی ہم فخر محسوس کیا کرتے تھے، وہ جملہ تھا ’ میڈ ان پاکستان‘۔
 انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ 1986 میں ہینو پاک کا حصہ بنے، اس سے قبل وہ ریپبلک موٹرز میں کام کرتے تھے۔ جاپانی سرمایہ کاری پاکستان میں آئی تو ریپلک موٹرز ہینو پاک میں تبدیل ہو گئی اور پاکستانی عملے نے ملک میں بسیں اور ٹرک بنانے کے سلسلے کو مزید وسعت دی۔ مارکیٹ میں طلب بڑھی اور دن رات کام ہونے لگا۔ آٹو انڈسٹری ترقی کرنے لگی اور ملک میں گاڑیوں کے سپیئرپارٹس مینوفیکچر کرنے کے کئی چھوٹے بڑے کارخانے قائم ہو گئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ 'اندرون شہر سفر کے لیے ہی نہیں بلکہ بیرون شہر چلنے والی بسیں بھی تیار کی جانے لگیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں سے کمپنی کو آرڈر ملنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریباً 65 فی صد بسیں پاکستان میں ہی مینوفیکچر کی جانے لگیں جب کہ باڈی میکنگ کا تقریباً سو فیصد کام پاکستان میں ہونے لگا۔ یہ وطن عزیز میں بسوں سے جڑی صنعت کے لیے ایک سنہرا دور تھا۔ سڑکوں پر 'میڈ ان پاکستان' بسیں چلتی نظر آتی تھیں۔‘
سید ارشد علی نے کہا، ’سڑک پر چلتی میڈ ان پاکستان بسیں دیکھ کر ہم خوشی اور فخر محسوس کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بسیں ہم اپنے ہاتھوں سے تیار کرتے تھے۔‘

رواں مالی سال کے دوران تقریباً 13 ارب روپے مالیت کی بسیں اور دیگر بڑی گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔ (فوٹو: ایکس)

درآمد کی گئی بسوں میں بجلی سے چلنے والی بسوں سمیت دیگر بسیں شامل ہیں۔ یہ بسیں پنجاب میں میٹرو سروس، کراچی میں گرین لائن، ریڈ بس سروس، پنک بس سروس اور خیبر پختونخوا میں بی آر ٹی سروس کے لیے استعمال کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ کمپنیاں بھی درآمد شدہ بسوں پر انحصار کر رہی ہیں۔
سید ارشد علی کا کہنا تھا کہ ’مقامی سطح پر بسوں کی تیاری سے جہاں کئی صنعتیں پروان چڑھ رہی تھی وہیں روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے تھے۔ کمپنی میں کام کرنے والے بھی خوش تھے اور ایک روز میں تقریباً 25 سے 28 بیسں تیار ہورہی تھیں۔ فیکٹری میں 24 گھنٹے کام جاری رہتا تھا اور اب یہ صورتحال ہے کہ ملک میں کئی ایسی کمپنیاں ہیں جو اچھی اور معیاری بسوں اور ٹرکوں سمیت دیگر ہیوی وہیکل گاڑیاں بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن انہیں نظر انداز کرکے بیرون ممالک سے بسیں درآمد کی جا رہی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ بسیں جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں اور ناصرف دیکھنے میں خوبصورت ہیں بلکہ ان کے فیچر بھی ایسے ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں، جن میں بس کے خودکار دروازے، بس کے رکنے پر فلور کی موومنٹ اور ڈیجیٹل سکرین سمیت دیگر نظام شامل ہیں۔‘
ارشد علی کہتے ہیں، یہ اچھا ہے کہ ملک میں جدید بسیں ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ پہلے ہمیں اپنی ضرورت کو پورا کرنا ہوگا، ہمیں ملکی معیشت کو دیکھتے ہوئے اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے، اور اپنی صنعت کو سہارا دینا ہوگا۔
’اس سے جہاں ملک کو فائدہ ہوگا وہیں روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔‘
شہریوں کی جانب سے حکومت کے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بسیں درآمد کرنے کے فیصلے کو جہاں سراہا جارہا ہے وہیں آٹو انڈسٹری کے ماہرین اس حوالے سے تحفظات بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ حکومتوں کے فیصلوں سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک ایک کر کے ملک کی ہر صنعت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

سید ارشد علی  کا کہنا ہے مقامی سطح پر بسوں کی تیاری سے جہاں کئی صنعتیں پروان چڑھ رہی تھی وہیں روزگار کے مواقع بھی بڑھ رہے تھے۔ (فوٹو: ایکس)

آٹو سیکٹر کے ماہر مشہود علی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کے تقریباً تمام ہی صوبوں نے اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی سطح کے معاملات خود طے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ یہ ایک اچھا عمل ہے جس سے عوام کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی خود مختاری کا جہاں فائدہ ہو رہا ہے وہیں اس کے کچھ منفی اثرات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ قومی سطح پر اب آٹو سیکٹر سے متعلق پالیسی تیار نہیں کی جا رہی، اس لیے تمام صوبے اپنی ضرورت کے مطابق بسیں بیرون ممالک سے درآمد کر رہے ہیں۔‘
مشہود علی کے مطابق، ’پاکستان اپنی ضرورت پورا کرنے کے لیے بسیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صوبائی حکومتیں اگر باہر سے بسیں درآمد کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ بسیں پاکستان سے خریدنے کی کوشش کرتی تو بسیں بنانے والی کمپنیاں اچھی اور معیاری بسیں بنا کر دے سکتی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماری حکومتوں کو سوچنا ہوگا کہ مقامی سطح پر کام کرنے والی کمپنیوں کی اگر حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی تو ان کمپنیوں کا مارکیٹ میں کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘

مشہود علی کے مطابق پاکستان اپنی ضرورت پورا کرنے کے لیے بسیں بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

مشہود علی نے کہا کہ ایک جانب پاکستان کو ہر کچھ عرصے بعد ڈالرز کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری جانب اس نوعیت کے فیصلوں سے ہم خود ڈالرز بیرون ملک بھیج دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مقامی صنعت فوری طور پر بیرون ممالک سے درآمد کی جانے والی بسوں کی طرز کی خوبصورت اور لگژری بسیں تو نہیں بنا سکتی مگر ایسی بسیں ضرور بن سکتی ہیں جن سے فوری ضرورت پوری ہو اور وقت کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرکے درآمد کی گئی بسوں کے معیار کے برابر آیا جا سکتا ہے۔‘

شیئر: