ڈیپ نامی ایک برطانوی کمپنی نے پانی کے اندر ایک بیس بنانے کا منصوبہ تیار کیا ہے جہاں انسانی زندگی ممکن ہو سکے اور انسان طویل مدت تک وہاں قیام بھی کر سکے۔ امکان ہے کہ یہ جگہ سمندر کی سطح کے نیچے 200 میٹر تک گہرائی میں ہو گی۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق اس بیس میں چھ یا اس سے زائد افراد کے رہنے کی گنجائش ہوگی۔ درحقیقت یہ منصوبہ انسان کو پانی میں رہنے والی ایک نوع بنا دے گا جہاں پہلی مرتبہ اس کے زیر زمین رہنے کا عمل کا آغاز ہو جائے گا۔
مزید پڑھیں
-
کوئٹہ کی ہنہ جھیل میں لیکج، ’خشک ہونے کا خدشہ‘Node ID: 877181
-
سعودی غوطہ خور جوڑے کی سمندر کی گہرائی میں منگنیNode ID: 880210
-
بحیرہ احمر کے جزائر میں بڑی تعداد میں کھچووں کے مسکنNode ID: 881172
ڈیپ کمپنی برطانیہ کی کاؤنٹی گلوسٹرشائر میں ویلز کاؤنٹی کے ساتھ واقع ہے۔ یہ کمپنی اپنے منصوبے کا موازنہ بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے ساتھ کرتی ہے اور زیرسمندر انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے مشن پر گامزن ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سمندر زمین کے دو تہائی حصے پر موجود ہیں اور وہ ہی آکسیجن فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں تاہم اس اقدام سے زیرِ سمندر ان مقامات کے بارے میں بھی جاننے کا موقع ملے گا جن کے بارے میں ہم تاحال بہت کم جانتے ہیں، جیسا کہ خلائی تحقیق کے دوران ہی انسان کو پہلے سے زیادہ اور نئی معلومات حاصل ہوئیں۔
ڈیپ کا کہنا ہے کہ اس کی کوشش ہے کہ 2027 تک وہ زیرِ سمندر ایسی بیس بنا دے جہاں انسان رہ سکے۔
کمپنی نے مزید کہا ہے کہ ’سمندر کے اندر ایک ماہ تک انسان کے رہنے کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں، اگرچہ کہ اتنے زیادہ دنوں تک کسی انسان کا پانی کے اندر رہنا خاصا مشکل کام ہے تاہم، سائنسی تحقیق کے لیے اتنی گہرائی میں ضرور جایا جا سکتا ہے۔‘
اس کے علاوہ بحری جہازوں کے ملبے کا جائزہ لینے اور کسی بھی ہنگامی صورت حال میں امدادی آپریشنز کے لیے بھی یہ طریقہ زیادہ آسان اور موثر ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈیپ کے مطابق ’زیرِ سمندر انسان کے لیے رہنا ممکن ہے کیونکہ خلا میں بھی وہ برسوں سے رہ رہا ہے جہاں سانس لینے کے لیے ہوا بھی موجود نہیں ہے۔‘
’بنیادی مسئلہ پانی کا دباؤ ہے جو کہ فوری طور پر سطح آب پر آنے کی صورت میں کسی انسان کے لیے غوطہ خوری کی بیماری ’دی بینڈز‘ کا باعث بن سکتا ہے۔‘
سائنسی تحقیق کے ڈائریکٹر ڈان کیرناگس کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب غوطہ خور کافی عرصے تک کسی خاص گہرائی میں رہے گا، تو اس کا جسم مکمل صلاحیت کے مطابق پانی جذب کرلیتا ہے۔‘
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا ہے کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ جسم نے تمام تحلیل شُدہ گیسوں کو جذب کر لیا ہے جو اس دباؤ کے تحت جا رہی ہیں۔‘
’غوطہ خور کو اب بھی بحفاظت سطح آب پر واپس آنے کے لیے ڈی کمپریشن (ہوا کے دباؤ میں کمی) سے گزرنا پڑے گا تاکہ آہستہ آہستہ گیسوں کو خارج ہونے دیا جائے اور ڈی کمپریشن کی بیماری کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔‘
ڈیپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اس کے علاوہ انسان پہلے ہی طویل عرصے سے زیر سمندر آبدوزوں میں بھی رہتا آرہا ہے، لہٰذا زیرِ آب رہنا کوئی ایسی ناممکن بات نہیں ہوگی۔‘