آپ راستہ بھول گئے ہوں یا آپ کی کوئی چیز کھو گئی ہو یا پھر آپ کو مکہ ریجن میں کسی خطرناک صورتِ حال کا سامنا ہو جائے۔ بس 911 ڈائل کیجیے اور جو پہلی بات آپ سنیں گے وہ ہوگی ’بتائیے، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا/سکتی ہوں؟‘
لیکن اس سادہ سوال کے پیچھے، ہنرمند آپریٹرز کی ایک ٹیم ہے، ایک بڑا اور جدید ترین نظام کام کر رہا ہے۔ یہ نظام ’دا یونیفائیڈ سکیورٹی آپریشنز سینٹر911‘ ہے جو مکہ ریجن میں واقع ہے۔ یہ سینٹر سکیورٹی آپریشن کے قومی مرکز کا ایک ڈویژن ہے جو وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
عیدالاضحی پر مکہ اور حج مقامات پر ریکارڈ 22.3 ملین کالزNode ID: 890701
عرب نیوز کے مطابق حفاظتِ عامہ کا بہت اہم حصہ ہونے کے باجود اس نظام کے بارے میں زیادہ لوگوں کو نہیں پتہ۔ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال کا جواب دینے کے لیے ایک مربوط کوشش کی ذمہ داری اسی نظام پر ہے۔ اس کا کردار اس وقت انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب ملک میں بڑے ایونٹس ہو رہے ہوں جیسے آج کا حج کا ایونٹ ہے۔
عام طور پر سکیورٹی اور دیگر خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے تقریباً 15 نمائندے اس نظام کا حصہ ہوتے ہیں لیکن حج کے ایام میں ان کی تعداد دگنا ہو سکتی ہے تاکہ کسی بھی بڑے ہجوم یا امکانی ہنگامی صورتِ حال کے ساتھ موثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔
مشاعرِ مقدسہ سے محض چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع اس مرکز کے تین اہم حصے ہیں: وہ ہال جہاں کال سنی جاتی ہے، وہ ہال جہاں سے ٹیموں کو موقع پر بھیجنے کا کام شروع ہوتا ہے اور وہ ہال جہاں سے شہر کے بڑے رقبے پر نصب سکیورٹی کیمروں کے نیٹ ورک کی نگرانی کی جا رہی ہوتی ہے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کیپٹن عبدالعزیز بن زہیر الغامدی نے بتایا ’ ان کے مرکز میں روزانہ 40 ہزار کالز آتی ہیں۔‘

الغامدی کے بقول جو این سی ایس او کے ترجمان بھی ہیں، ان میں سے 80 فیصد کالز میں جو مسئلہ بیان کیا جاتا ہے، آپریٹر خود اسی وقت حل کر دیتے ہیں اور انھیں ان کالز کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔
الغامدی کہتے ہیں ’بہت سی کالز میں لوگ ہم سے اُن ضابطوں یا قاعدوں کے بارے میں پوچھتے ہیں جو شہر میں نافذ ہیں جیسے مکہ میں کب اور کیسے داخل ہونا ہے یا مکہ میں کس کو داخلے کی اجازت ہے اور کسے نہیں۔‘
جب اہم ایونٹس ہو رہے ہوتے ہیں جیسے حج، تو کالز کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ جمعرات 5 جون کو اس مرکز نے 46 ہزار 79 کالز کا جواب دیا جن میں سے بہت سی کالز حاجیوں نے کی تھیں جنھیں یا اپنے خمیوں تک پہنچے میں دشواری کا سامنا تھا یا انھیں طبی امداد درکار تھی۔

کیپٹن الغامدی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ’ صرف 20 فیصد کالز ایسی ہوتی ہیں جن کا باضابطہ اندارج ضروری ہوتا ہے۔ ان کالز کو مزید کارروائی کے لیے سپیشل یونٹس کی طرف بھیج دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس مرکز میں جدید اور اعلٰی ترین آلات نصب ہیں۔ ہم ہر کال کا جواب دو سیکنڈ یا اس سے بھی کم وقت میں دیتے ہیں۔‘
اس مرکز میں صرف ردِ عمل کے طور پر ہی کام نہیں ہوتا بلکہ یہاں موجود افراد خود سے روزانہ ہونے والے واقعات کی نگرانی کر رہے ہوتے ہیں اور اہم تنصیبات یا سفارتی مشنز کی حفاظت کے لیے الرٹ جاری کر دیتے ہیں۔ یہ افراد قومی ایونٹس کے لیے کسی کے کہنے سے قبل ہی سکیورٹی پلان بھی خود مرتب کرتے ہیں۔
