Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مظفر گڑھ: بیٹے کو سیلاب سے بچاتے بچاتے باپ نے جان دے دی

سیلاب کے پانیوں نے اب جنوبی پنجاب کو گھیرا ہوا ہے۔ پنجاب میں شہری آبادیوں کو بچاتے ہوئے راستے میں جتنے بھی ہیڈ ورکس ہیں ان سے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہوئے اب ریلا پنجند کے مقام سے گزر رہا ہے۔ جبکہ جلال پور پیروالا اور علی پور کے علاقوں میں بہاؤ کے کنٹرول کی تدبیریں کام نہ آئیں اور شہری آبادیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔
مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کے علاقے میسن کوٹ بھوا میں محمد اقبال نے جمعے کی صبح جب دیکھا کہ پانی کی دیوقامت لہروں کا مقابلہ کرنا اب ان کے بس میں نہیں رہا تو انہوں نے اپنے10  سالہ بیٹے اور چند مویشیوں کو پہلے اپنے باڑے سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ عینی شاہدین کے مطابق جس طرف انہوں نے اپنے بیٹے کو نکالا اس طرف پانی کا بہاؤ اور تیز ہو گیا۔
مقامی صحافی عدنان مجتبیٰ نے اردو نیوز کو اس کہانی کی تفصیل کچھ یوں بتائی کہ ’محمد اقبال جن کی عمر 50 برس کے لگ بھگ تھی، انہوں نے بھانپ لیا کہ ان کا بیٹا لہروں کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تو جلدی سے اس کے پیچھے گئے۔ اور وہاں سے اپنے بیٹے کو دوسری طرف کھینچ کر لائے، لیکن خود نہ بچ سکے اور ڈوب گئے۔‘
بیٹے نے کہا کہ ’میں پانی کی لہروں میں بہہ گیا اور ابو مجھے بچانے کے لیے آئے لیکن مجھے بچانے کے بعد وہ خود ڈوب گئے۔‘
یہ منظر کئی افراد نے دور سے دیکھا اور پھر ریسکیو کے لیے فون گھمائے، ریسکیو ٹیمیں پہنچیں تو تھوڑی تگ و دو کے بعد محمد اقبال کی لاش نکال لی گئی۔
عدنان مجتبی بتاتے ہیں کہ ’اس کے بعد جو صورت حال تھی وہ زیادہ تکلیف دہ ہے۔ کیونکہ اب ان کی لاش کو دفنانے کے لیے زمین نہیں تھی۔ ارد گرد کے سارے دیہات کے قبرستان بھی اس وقت کئی کئی فٹ کے اندر ہیں۔ جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ان کی لاش کو ریسکیو کشتی پر بہاولپور لے جا کر دفن کیا جائے، کیونکہ قریب ترین خشکی وہیں ہے۔ ان کے خاندان کو ان کی موت کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی قبرستان میں دفن نہ ہو سکنے کا علیحدہ رنج ہے۔‘
علی پور پیروالا اور جلالپور میں کیا ہوا؟

جلال پور پیروالا اور علی پور کے علاقوں میں بہاؤ کے کنٹرول کی تدبیریں کام نہ آئیں اور شہری آبادیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پنجاب کی شہری آبادیوں کو سیلاب سے بچانے کی حکومتی اداروں کی کوششیں جنوبی پنجاب میں کیا ناکام ہوئی ہیں؟ یہ سوال اس وقت ہر طرف پوچھا جا رہا ہے۔ تاہم اردو نیوز نے مقامی لوگوں سے بات کر کے صورت حال جانچنے کی کوشش کی ہے کہ آخر وہاں ہوا کیا۔
ایک مقامی  شہری اسفند نے بتایا کہ ’علی پور کے علاقے میں ایک پرانا فلڈ بند چندربھان کے نام سے ہے جس کی دوبارہ تعمیر قانونی بندشوں کی وجہ سے نہیں ہو سکی تھی کیونکہ کچھ مقامی افراد نے عدالت سے حکم امتناعی لے رکھا تھا۔ جب سیلاب انتظامیہ اور لوگوں کو سیلاب کی شدت کا اندازہ ہوا تو پھر عظمت پور کے مقام پر ایک کچا بند باندھا گیا لیکن وہ پانی کو سہار نہیں سکا اور ٹوٹ گیا۔‘
مختلف لوگوں سے بات کرنے کے بعد جو صورت حال سامنے آ رہی ہے وہ یہ کہ عظمت پور کا بند ٹوٹنے کے بعد علی پور کو بچانے کے لیے لوگوں نے خود سلطان پور اور سیت پور کے علاقوں میں سڑکیں کاٹ کر پانی کو دریائے سندھ کی طرف موڑنے کوشش کی جس کی وجہ سے علی پور کا 70 فیصد علاقہ زیر آب آ گیا۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس وقت سو کے قریب کشتیاں ریسکیو کے مشن پر ہیں جو لوگوں کی زندگیاں بچا رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

عدنان مجتبی بتاتے ہیں کہ ’لوگوں نے سڑکوں کو راتوں رات کٹ لگائے جس سے انتظامیہ کے ساتھ رابطوں کا فقدان بھی سامنے آیا۔ لیکن یہ عجلت اس لیے بھی قابل فہم ہے کہ پانی کی مقدار مسلسل بڑھ رہی تھی اور شہری آبادی خطرے میں تھی۔ ابھی اس وقت ساڑھے چھ لاکھ کیوسک کا ریلا پنجند کے مقام سے گزر رہا ہے۔ یہ صورت حال ایک دو دن مزید ایسی ہی رہے گی۔‘
دوسری طرف پنجاب کی سینئیر وزیر مریم اورنگزیب اس وقت اسی علاقے میں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ خطرے میں گھرے تمام افراد کو نکال لیا گیا ہے۔ اور اس وقت سو کے قریب کشتیاں ریسکیو کے مشن پر ہیں جو لوگوں کی زندگیاں بچا رہی ہیں۔

 

شیئر: