امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر بمباری روکنے کا حکم دیا ہے۔
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حماس نے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کے چند نکات کو تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
مزید پڑھیں
-
حماس کے عسکری رہنما نے امریکی امن منصوبہ مسترد کر دیا: بی بی سیNode ID: 895352
اس منصوبے کا مقصد تقریباً دو برس سے جاری جنگ کا خاتمہ اور سات اکتوبر 2023 کے حملے میں تحویل میں لیے گئے باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنانا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق حماس کا کہنا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اقتدار دیگر فلسطینیوں کو سونپنے کے لیے تیار ہے تاہم منصوبے کے دیگر پہلوؤں پر مشاورت کی ضرورت ہے۔
حماس کے سینیئر رہنماؤں نے عندیہ دیا ہے کہ اب بھی کئی بڑے اختلافات باقی ہیں جن پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے ردعمل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’میرا یقین ہے کہ وہ دیرپا امن کے لیے تیار ہیں۔‘
انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’اسرائیل کو فوراً غزہ پر بمباری بند کرنی چاہیے تاکہ ہم یرغمالیوں کو بحفاظت اور فوری طور پر نکال سکیں۔ اس وقت ایسا کرنا بہت خطرناک ہے۔ ہم پہلے ہی اس حوالے سے بات چیت کر رہے ہیں۔‘

حماس نے کہا ہے کہ اس منصوبے کے وہ پہلو جو غزہ کے مستقبل اور فلسطینی حقوق سے متعلق ہیں، ان پر دیگر دھڑوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ‘متفقہ فلسطینی موقف‘ کی بنیاد پر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیے۔
بیان میں حماس کے غیر مسلح ہونے کا کوئی ذکر نہیں تھا، جو کہ صدر ٹرمپ کی تجویز میں شامل اسرائیل کا ایک اہم مطالبہ ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعے کو کہا تھا کہ حماس کو اتوار کی شام تک مجوزہ امن معاہدے پر رضامند ہونا ہوگا، ورنہ جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوگا۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ٹرمپ بظاہر جنگ ختم کرنے اور کئی یرغمالیوں کو واپس لانے کے وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کے امن منصوبے کو اسرائیل نے قبول کیا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا خیرمقدم کیا گیا، مگر کلیدی ثالث مصر اور قطر، اور کم از کم ایک حماس عہدے دار نے کہا ہے کہ کچھ نکات مزید مذاکرات کے متقاضی ہیں۔
ٹرمپ نے جمعہ کو سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’حماس کے ساتھ معاہدہ اتوار کی شام واشنگٹن، ڈی سی کے وقت شام چھ (6) بجے تک طے پانا چاہیے۔ ہر ملک نے اس پر دستخط کر دیے ہیں! اگر یہ آخری موقع والا معاہدہ طے نہ پایا تو حماس کے خلاف ایسی تباہی و غضب پھوٹ پڑے گا جیسا کہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایک نہ ایک طریقے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم ہو گا۔‘