ایشز سیریز: پرتھ ٹیسٹ ڈرامائی نشیب وفراز سے بھرپور رہا، عامر خاکوانی کا تجزیہ
ہفتہ 22 نومبر 2025 17:41

عامر خاکوانی -صحافی، لاہور
ایشز سیریز کے بارے میں آپ جانتے ہی ہیں، یہ عمومی طور پر بہت دلچسپ، تندو تیز اور بھرپور رہتی ہے کیونکہ انگلینڈ اور آسٹریلیا جیسے دو تاریخی حریف ملک اس کے لیے بھرپور تیاری کرتے ہیں۔
اس بار مگر ایشز سیریز کا آغاز بہت زیادہ تیز، جارحانہ اور ڈرامائیت سے بھرپور ہوا ہے۔ پہلا ٹیسٹ صرف دو دنوں میں ختم ہوگیا، آسٹریلیا نے انگلینڈ کو آٹھ وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی برتری حاصل کر لی۔
یشز کی تاریخ
آگے بڑھنے سے پہلے چند سطروں میں ایشز کی تاریخ جان لیجیے۔
اس کا آغاز کوئی 150 برس قبل 1883-1882میں ہوا، جب آسٹریلیا نے انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دی۔ تب ایک طنزیہ آرٹیکل اخبار میں شائع ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ’انگلش کرکٹ مر گئی، اور اس کی راکھ آسٹریلیا لے جائے گا۔‘
اس واقعے سے ‘Ashes’ کا نام سامنے آیا اور اس سیریز کو ’ایشز سیریز‘ کہا جانے لگا۔ یہ عموماً پانچ ٹیسٹ میچوں پر مشتمل ہوتی ہے، میزبان ملک ہر بار تبدیل ہوتا ہے۔
ہر دو سال بعد ایک سیریز انگلینڈ میں جبکہ اگلے دو برس کے بعد آسٹریلیا میں ہوتی ہے۔ روایتی طور پر انگلینڈ میں ایشز سیریز سمر سیزن یعنی جون، جولائی، اگست میں ہوتی ہے جبکہ آسٹریلیا میں ایشز سیریز نومبر، دسمبر، جنوری میں ہوتی ہے۔
تاریخی اعدادوشمار کے مطابق اب تک 70 سے زائد سیریز ہو چکی ہیں۔ آسٹریلیا نے قریباً 34 بار فتح حاصل کی، انگلینڈ نے قریباً 32 بار، اور باقی سیریز ڈرا رہیں۔
ایشز سیریز 2026-2025 اور پرتھ ٹیسٹ
اس ایشز سیریز کا پہلا ٹیسٹ میچ پرتھ میں رکھا گیا۔ پرتھ کی پچ روایتی طور پر تیز اور باؤنسی سمجھی جاتی ہے، وہاں فاسٹ بولرز کو زیادہ مدد ملتی ہے۔ آسٹریلیا کے لیے بیڈ لک یہ ہوئی کہ ان کے کپتان اور مشہور فاسٹ بولر پیٹ کمنز زخمی ہونے کے باعث پہلے ٹیسٹ میں شریک نہیں ہو سکے۔
یوں سٹیو سمتھ کو کپتان بنانا پڑا۔آسٹریلیا کے بہت اہم اور تجربہ کار فاسٹ بولر جوش ہیزل وڈ بھی ٹانگ میں تکلیف کے باعث نہیں کھیل پائے جبکہ تیسرے فاسٹ بولر سین ایبٹ بھی ہیمسٹرنگ انجری کے باعث دستیاب نہیں تھے۔
یوں آسٹریلیا کے لیے پرتھ ٹیسٹ میں اچھی فاسٹ بولنگ لائن اپ کھلانا ایک چیلنج بن گیا تھا۔
اسی وجہ سے ڈومیسٹک میں تجربہ رکھنے والے برینڈن ڈوگٹ کو ٹیسٹ ڈیبیو کروایا گیا۔ فاسٹ بولنگ میں تمام تر دباؤ اور ذمہ داری تجربہ کار مچل سٹارک پر تھی۔ اُن کا ساتھ نبھانے کے لیے 15 ٹیسٹ میچ کھیلنے والے 36 سال کے سکاٹ بولینڈ بھی موجود تھے۔
انگلینڈ کے کپتان بین سٹوکس نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ فیصلہ بُرا نہیں تھا، مگر مچل سٹارک بڑے خطرناک موڈ میں تھا۔
سٹارک نے انگلش بیٹنگ کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ پہلے اوور میں وکٹ حاصل کی اور پھر بین ڈکٹ کو آؤٹ کرنے کے ساتھ جورُوٹ جیسے بلے باز کو بھی صفر پر آؤٹ کر دیا۔
انگلینڈ کی ٹیم پہلی اننگز میں ایک 172 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ مچل سٹارک نے سات وکٹیں حاصل کیں جبکہ دو وکٹیں ڈیبیو کرنے والے ڈوگٹ اور ایک پارٹ ٹائمر گرین کو ملی۔
آسٹریلیا کو بڑا اچھا سٹارٹ مل گیا تھا، مگر انگلش بولنگ نے بھی جوابی حملہ بڑا شدید کیا اور آسٹریلوی بیٹنگ بھی ڈھیر ہوگئی۔
جوفرا آرچر اور گریم وڈ نے بہت تیز رفتار گیندیں کرائیں، آرچر نے تو ابتدائی اوورز میں آسٹریلوی بیٹرز کو باندھ کر رکھ دیا۔
پہلا ٹیسٹ کھیلنے والے اوپنر جیک ویدرالڈ صفر پر آؤٹ ہوئے۔ آرچر نے خاصی اچھی بولنگ کی اگرچہ اسے وکٹیں نسبتاً کم ملیں۔
پھر درمیان میں کپتان بین سٹوکس نے بڑی عمدہ بولنگ کرائی اور پانچ وکٹیں حاصل کر کے آسٹریلیا کو صرف 132 رنز پر آؤٹ کر دیا۔
یوں 40 رنز کی برتری مل گئی ۔ پہلے دن 19 وکٹیں گریں اور یوں 100 سال سے زیادہ عرصے کا ریکارڈ بھی ٹُوٹ گیا۔
پہلے دن یوں لگ رہا تھا کہ انگلینڈ کو برتری مل گئی ہے، وہ اگر دوسری اننگز میں اچھی بیٹنگ کر گئے تو یہ میچ جیتا جا سکتا ہے۔
تقدیر مگر اس پر مسکرا رہی تھی۔ یوں کہہ لیں کہ آسٹریلوی فاسٹ بولرز کے ارادے مختلف تھے۔
میچ کے دوسرے دن انگلش بیٹنگ بُری طرح ناکام رہی، زیک کرالی نے پہلی اننگز کی طرح دوسری اننگز میں بھی صفر کر کے پیئر کی رُسوائی حاصل کی۔
انگلش ٹیم دوسری اننگز میں بمشکل 164 رنز بنا پائی اور یوں پہلی اننگز کی 40 رنز کی لیڈ کے بعد 205 رنز کا ہدف دیا۔
ایک لو سکورنگ میچ میں 205 رنز اتنے بھی کم نہیں ہوتے، خود دیکھیں کہ پہلی تین اننگز میں کوئی ٹیم 200 رنز نہیں بنا پائی تھی۔
اب یہاں پر آسٹریلوی بیٹنگ خاص کر ٹریوس ہیڈ کو کریڈٹ دینا چاہیے۔ وہ ٹیسٹ میچز میں مڈل آرڈر میں بیٹنگ کرتے ہیں، اس میچ میں اوپننگ کرنے آئے اور آتے ہی یوں بلا گھمایا کہ انگلش بولرز کے ہوش اُڑ گئے۔
ٹریوس ہیڈ نے صرف 69 گیندوں پر اپنی ٹیسٹ سینچری بنائی، یہ ایشز سیریز کی دوسری تیز ترین سینچری ہے۔ ہیڈ اور پھر لبوشین نے مل کر بہت تیز رفتاری سے رنز کیے۔
سات رنز فی اوور کے حساب سے 28 اوورز اور دو گیندوں پر 205 پانچ رنز بنا کر میچ جیت لیا۔ ٹریوس ہیڈ نے 83 گیندوں پر ایک 123 رنز بنائے جن میں 16 چوکے اور چار چھکے شامل تھے، جبکہ مارنس لبوشین نے 49 گیندوں پر 51 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔
میچ میں کیا فیصلہ کن رہا؟
اس میچ میں دونوں ٹیموں کی جانب سے تیز اور جارحانہ کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ اسے ماڈرن کرکٹ کہیں یا عُجلت میں کھیلی گئی تیز کرکٹ یا جو بھی کہیں، مگر اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ کئی مواقع پر شاٹ سلیکشن دُرست نہیں تھی۔ بعض بلے بازوں نے وکٹیں تھرو کیں۔ انگلینڈ جسے اپنی جارحانہ بیز بال کرکٹ پر بڑا فخر ہے، وہ بھی ایکسپوز ہوا۔
اگر دوسری اننگز میں انگلینڈ کے بلے باز ذمہ داری سے کھیلتے تو عین ممکن تھا کہ ان کا ہدف 100 رنز زیادہ ہوتا۔ خود انگلش ماہرین یہ کہتے رہے کہ انگلینڈ کی حکمتِ عملی نے اس وکٹ پر کام نہیں کیا جہاں تھوڑے صبر سے کام لیتے ہوئے کمزور گیندوں کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
مچل سٹارک اور بولینڈ کی بولنگ نے انگلش بیٹرز پر مسلسل دباؤ رکھا اور اضافی موقع نہ دیا۔سٹارک نے مجموعی طور پر ٹیسٹ میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔ بولینڈ نے دوسری اننگز میں تین کھلاڑی آؤٹ کیے۔
جو رُوٹ جو انگلینڈ کے سب سے اہم اور بڑے بلے باز ہیں، وہ دونوں اننگز میں ناکام ہوئے، ہر بار سٹارک نے انہیں آؤٹ کیا۔
جو رُوٹ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ گیند کو اپنی ناک کے نیچے کھیلتے ہیں، تھرڈ سلپ اور گلی کے درمیان پلیس کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ انداز آسٹریلوی حالات میں مؤثر ثابت نہیں ہوا۔
اس سب کے باوجود سب سے اہم فیکٹر ٹریوس ہیڈ کی چوتھی اننگز میں دھواں دھار اننگز تھی۔ ہیڈ نے ابتدا ہی سے ایسی تیز اور جارحانہ بیٹنگ کی کہ مخالف انگلش بوولرز چکرا گئے۔
انہیں ایسے لاٹھی چارج کی توقع ہی نہیں تھی۔ٹریوس کی اننگز کی خاص بات جارحانہ اپروچ کے ساتھ عمدہ فُٹ ورک اور گیند کو جلد پڑھنے کی صلاحیت تھی۔ ہیڈ نے انگلش بولرز کو پلان بی بنانے کا موقع ہی نہیں دیا۔ آسٹریلوی میڈیا نے ہیڈ کی اننگز کو ٹک ٹاک اننگز قرار دیا یعنی برق رفتار اور سنسنی خیز۔
انگلش کپتان بین سٹوکس نے بعد میں تسلیم کیا کہ ٹریوس ہیڈ کی بیٹنگ سے انگلینڈ کی ٹیم ’شاک‘ میں چلی گئی تھی۔
مچل سٹارک کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے سینیئر بولر ہونے کا حق ادا کیا۔ پہلی اننگز میں سات اور دوسری اننگز میں تین اہم کھلاڑیوں کو آؤٹ کر کے انہوں نے انگلش ٹیم کی کمر توڑ دی۔
35 برس کے مچل سٹارک نے اپنی فٹنس کا بھی مظاہرہ کیا اور مسلسل اچھی سپیڈ کے ساتھ گیند کو دونوں طرف سوئنگ کیا۔
انگلینڈ کی جانب سے جوفرا آرچر کی بولنگ خوش آئند کہی جا سکتی ہے۔ انجریز کا شکار آرچر کے بارے میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ وہ شاید اب کبھی ٹیسٹ کرکٹ کھیل ہی نہ سکیں۔ جوفرا آرچر نے پہلی اننگز میں خاصی تیز بولنگ کرائی، 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے لگ بھگ۔
عثمان خواجہ کا تنازع
آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ اس میچ میں تنازعے کا شکار رہے۔ دراصل عثمان خواجہ کچھ عرصہ قبل کمر کی انجری کا شکار ہوئے۔ وہ اس ٹیسٹ سے پہلے دو تین دن بڑے جوش وخروش سے گھنٹوں گالف کھیلتے رہے۔
پہلے دن اُن کی کمر میں درد اٹھا اور وہ گراؤنڈ سے باہر چلے گئے تو پریس نے تنقید کی کہ اگر عثمان خواجہ اتنا وقت گالف پر نہ لگاتے تو شاید ان فٹ نہ ہوتے۔ نقصان یہ ہوا کہ پہلی اننگز میں عثمان خواجہ اوپننگ نہ کر پائے اور لبوشین کو اوپننگ کرنا پڑی۔
دوسری اننگز میں بھی یہی ہوا۔ عثمان خواجہ اتنی دیر گراؤنڈ سے باہر رہے کہ انہیں پھر اوپننگ کی اجازت نہ ملی۔ اس بار تو یہ آسٹریلیا کی خوش نصیبی قرار پائی کہ مڈل آرڈر ٹریوس ہیڈ کو اوپننگ کرنا پڑی اور انہوں نے میچ کا پانسہ پلٹ دیا۔
عثمان خواجہ کی دوسری اننگ میں باری ہی نہیں آئی۔ آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے ویسے عثمان خواجہ کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی انجری سلپ میں جمپ لگا کر کیچ پکڑنے کی کوشش کی وجہ سے ہوئی ہے، یہ نئی انجری ہے، پُرانی انجری دوبارہ نہیں ہوئی۔
ایشز ٹیسٹوں کے درمیان بڑا وقفہ
اگلا ڈے اینڈ نائٹ پِنک بال ٹیسٹ برسبین میں ہوگا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ دس بارہ دن کا وقفہ ہے۔ وہ ٹیسٹ چار دسمبر سے شروع ہوگا۔
اگلے میچز میں بھی مناسب وقفہ ہے۔ آسٹریلیا میں جو پچھلی ایشز ہوئی تھی، اس میں میچز کے درمیان وقفہ کم تھا۔ اس بار کرکٹ آسٹریلیا نے کھلاڑیوں کی تھکن اور ورک لوڈ کا نسبتاً زیادہ خیال رکھا، خاص کر پہلے دو ٹیسٹ میچز میں۔
