Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یہ بے گھر کب اڑ جائیں، خبر نہیں

جن پرندوں کا آج نام و نشان نہیں یہ انسان بھی بالکل ویسے ہیں: تصویر پکسابے
اسلام آباد میں ڈینگی کے وار کے ڈر سے یہ دعا مسلسل مانگنا شروع کر رکھی  تھی کہ یا اللہ! سردی جلد آجائے اور بارش ہو جائے تاکہ اس گرمی، حبس اور مچھروں سے تو جان چھوٹ جائے۔ قبولیت کی گھڑی تھی شاید کہ رات کو وہ مینہ برسا کہ اللہ کی پناہ۔ بارش، طوفان، ژالہ باری، بجلی کی چمک تو بادلوں کی گھن گرج میں پھر دعا کرنے لگ گئی کہ یا اللہ! بارش کی شدت کو کم کردے۔ ایسا طوفان پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ اولے پڑنے کی آواز آرہی تھی اور بجلی کی چمک ماحول کو مزید پراسرار کر رہی تھی۔ رہی سہی کسر بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پوری کردی۔
خیر جیسے تیسے رات گزری، طوفان تھما، صبح اٹھ کر دیکھا تو میری حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ میرا پسندیدہ درخت گھر کے بیرونی حصے سے ٹوٹ کر اندورنی حصے میں گرا پڑا ہے۔ یہ درخت بہت پرانا تھا، گھر کی بالائی منزل تک پہنچتا تھا، اس پر بہت سی چڑیوں کے خاندان رہتے تھے۔ پر جب طوفان آیا تو اپنے ساتھ انہیں اڑا کر لے گیا میں نے درخت کی شاخوں میں ان گھونسلوں اور پرندوں کو ڈھونڈا لیکن ان کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ طوفان نے چڑیوں کے گھونسلوں کا نام و نشان مٹا دیا۔ یہ روز اتنا شور کرتی تھیں کہ صبح کے وقت دیر تک سونا مشکل ہوجاتا تھا جیسے یہ کہتی تھیں اٹھ جاؤ،عبادت اور رزق سمیٹنے کا وقت نکلا جارہا ہے۔ سو کر وقت ضائع نہ کرو۔
بہت دیر میں رنجیدہ کھڑی رہی ایک تو درخت گر گیا جو پرندوں کا مسکن تھا دوسرا میرے لیے سایہ اور پردے کا باعث تھا۔ ایک درخت کو مکمل بڑا ہونے میں پانچ سے دس سال لگتے ہیں اور چند لمحوں میں طوفان اسے ڈھیر کر گیا۔ پھر سوچ واپس حال میں آئی تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اس کے مضبوط تنے اور شاخوں کو کیسے نکالا جائے تاکہ ہم کام پر جاسکیں یہ تو راستے میں پڑا ہے۔ اس کا تنا ایک طرف اور شاخیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں۔ میں نے سوچا کسی مزدور کو بلا کر یہ سب کام کرواتی ہوں کیونکہ یہ کام ہمارے بس کی بات نہیں۔

انسان کا سب سے اچھا دوست درخت ہے۔ فوٹو: جویریہ صدیق

بمشکل گیٹ کھولا تو باہر خانہ بدوش خواتین گزر رہی تھیں، درخت گرا دیکھ کر مجھے کہنے لگیں یہ درخت کا تنا ہمیں دے دو میں نے کہا آپ لے لو۔ میرے سامنے ہاتھوں سے ٹہنیاں توڑنے لگیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے ہاتھ فولاد کے ہوں۔ میں نے پوچھا تم اس کا کیا کرو گی تو وہ کہنے لگی اس کو اپنی جھگی کے باہر رکھوں گی، جب لکڑی خشک ہوجائے گی تو آگ جلا کر ہم سردی میں تپش حاصل کرسکیں گے۔ اتنے میں ایک اور خاتون آئی جو گھریلو کام کاج کرتی ہے۔ اس نے کہا کیا آپ یہ پتوں والی ٹہنیاں مجھے دی سکتی ہیں میں نے ایک بکری پال رکھی ہے یہ اس کے کام آجائے گی۔
میں نے کہا آپ لے سکتی ہیں اتنے میں ایک بچہ بھی آگیا اور اس نے بھی درخت کی ٹہنیاں مانگ لیں، میں نے پوچھا تم اس کا کیا کرو گے وہ کہنے لگا کہ میں کچی آبادی میں رہتا ہو ہمارے علاقے میں گیس نہیں یہ میں اپنی امی کو کھانے پکانے کے لیے دے دوں گا۔ میں نے کہا لے جاؤ۔
مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی رہی کہ اسلام آباد میں رہنے والوں کا یہ حال ہے کہ کچی آبادی میں گیس نہیں، لوگوں کے پاس سر چھپانے کے لیے چھت نہیں اور نہ ہی اتنے پیسے ہیں کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ بس یہاں سب دعوے کرتے ہیں، غریب عوام کے لیے کام کوئی نہیں کرتا۔
یوں صرف آدھے گھنٹے میں پورا درخت تقسیم ہوگیا اور جڑ سے الگ ہونے کے بعد بھی درخت لوگوں کے کام آگیا۔ اسی لیے میں اکثر کہتی ہوں انسان کا سب سے اچھا دوست درخت ہے جو زمین پر لگا ہو تو بھی کام آتا ہے زمین سے الگ ہوکر بھی انسان کے کام آتا ہے۔
میں تو یہ سوچ رہی تھی کہ مجھے مزدور بلا کر درخت کو راستے سے ہٹانا پڑے گا یا سی ڈی اے میں کسی سے پوچھنا پڑے گا کہ درخت کو کہاں منتقل کیا جائے؟ کیونکہ میں درخت کو کیاری یا سڑک پر چھوڑ کر کسی کے لیے باعث تکلیف نہیں بنانا چاہتی۔ پر یہ درخت بہت سے غریبوں کے کام آگیا۔ جب تک زمین کے ساتھ جڑا تھا ہمیں آکسیجن دیتا رہا، اس کے پتے مجھے مدھر گیت سناتے تھے، اس کی شاخوں پر پرندوں کے خاندان آباد تھے، مجھے گرمی سے بچاتا تھا، اس درخت کے تانے پردے کے پیچھے میں چائے پیتی اور چھپ چھپ کر چڑیوں کے گھونسلوں کی تصاویر بناتی تھی۔

اس کی شاخوں پر پرندوں کے خاندان آباد تھے۔ فوٹو: جویریہ صدیق

جب یہ لوگ میرے درخت کے حصے لے کر جارہے تھے تو مجھے ایسا لگا یہ بھی بے گھر پرندے ہیں جیسے میرے درخت پر تھے۔ جن پرندوں کا آج نام و نشان نہیں یہ انسان بھی بالکل ویسے ہیں حالات، غربت، مہنگائی، بیماری اور طوفانوں نے ان کو بھی بے آسرا اور بے نام کردیا ہے۔ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں، ان کے پاس مکان نہیں، پینے کا صاف پانی میسر نہیں ،ان کے پاس تعلیم نہیں اور کسی کو ان کا خیال بھی نہیں۔ سطح غربت کے نیچے آبادی کی کسی کو پرواہ نہیں نہ حکومت، نہ بیوروکریسی، نہ میڈیا، سب بس سیاست میں مگن ہیں۔ یہ بے گھر کب اڑ جائیں کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: