Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’چل اوئے، تیری کیہڑی گل اے‘

خواجہ سرا قانون بننے کا ابھی بہت سے سرکاری اداروں کو بھی علم نہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اگر میرا ہوم ورک نامکمل ہوتا تو بطور سزا مجھے ڈیسک پر کھڑے ہونے اور ناچنے کو کہا جاتا۔ میری ذات کو ہر روز توڑا جاتا، مجھے ذہنی اذیت دی جاتی۔  گھر آکر گھنٹوں روتی رہتی، پریشان ہوتی لیکن پھر بھی گھر والوں کو بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اگر بتاتی تو مجھے مار پڑتی کہ تمھاری عادتیں ہی ایسی ہیں۔

 

یہ کہانی نہیں بلکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ببلی پر بیتنے والے حقیقی واقعات ہیں۔ ببلی نے بتایا کہ بچپن میں بہن بھائیوں اور کزنز کے ساتھ کھیلتی تھی، کوئی بھی بات کرتی تو مجھے کہہ دیا جاتا چل اوئے ۔۔۔ تیری کیڑی گل اے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ صرف مجھے ہی ایسا ہی کیوں کہا جاتا ہے، مجھے اس لفظ کا مطلب معلوم نہیں تھا۔  مجھے وحشت ہوتی تھی لیکن پھر سے سب کچھ بھول کر کھیل کود میں مصروف ہوجاتی۔ پانچویں جماعت میں پہنچی تو ان جملوں میں اضافہ ہوتا گیا، مجھے گھر والوں اور اس معاشرے نے باور کرایا کہ میں ان سب سے مختلف ہوں ۔

حقوق تبھی منوائے جا سکتے ہیں جب کھلے دل سے ہمیں لوگ قبول کریں گے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا،سکول میں بلاوجہ میرا مذاق اڑایا جانے لگا۔ مجھے تنگ کیا جاتا رہا لیکن یہ سب میرا حوصلہ نہیں توڑسکے۔ میرے دل میں خیال آیا کے مجھے میرے جیسے لوگوں کی آواز بننا ہوگا، میں نے اس کوشش کی شروعات میٹرک مکمل ہونے کے بعد انٹر سے کی،اسی کمیونٹی کے لوگوں سے ملنا جلنا شروع کر دیا۔آہستہ آہستہ اپنی کمیونٹی کے لوگوں کے حقوق کی جنگ لڑنے لگی ۔

ہمارے تو گھر والے ہی ہمیں قبول نہیں کرتے۔

ببلی کہتی ہیں  پاکستان میں خواجہ سرا کمیونٹی کے لوگوں کو کافی مسائل کا سامنا ہے۔ حقوق تبھی منوائے جا سکتے ہیں جب کھلے دل سے ہمیں لوگ قبول کریں گے ۔پاکستان میں خواجہ سرا کے برائے نام حقوق  ہیں۔ ہمارے تو گھر والے ہی ہمیں قبول نہیں کرتے، جب مجھے گھر والوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو سوچتی تھی مجھ میں کیا مختلف ہے  جو میری فیملی اور یہ معاشرہ مجھے قبول نہیں کر رہا۔ جب باہر نکلی تو دیکھا میرے جیسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جن کو معاشرے نے دھتکاہوا ہے۔ جو اپنے ہونے کا، اپنے وجود کا یقین دلانے کے لیے بات کرتے ہیں مگر ان میں بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی اور معاشرہ ان کا مزاق اڑانے کے علاوہ کچھ نہیں کرتا۔
ببلی کے مطابق اپنے جیسے افراد کی بہتری کے مقصد کے تحت انہوں نے باقاعدہ ایک تنظیم تشکیل دی۔ جب کام کا آغاز کیا تو بہت سے لوگوں کی طرف سے مجھے دباؤ کا سامنا تھا،مجھے گالیاں بھی دیتے تھے۔ جب کسی دفتر جاتی کام کروانے کے لیے تو پورا پورا دن  باہر انتظار کروایاجاتا۔

گھر آکر گھنٹوں روتی رہتی، پریشان ہوتی لیکن پھر بھی گھر والوں کو بتا نہیں سکتی تھی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

مایوس ہونے کے بجائے انہوں نے یہ سوچا کہ جب آپ کچھ اچھا کرنے نکلو تو یہ سب تو ہوتا ہے اس لئے میرےساتھ بھی ہواہے۔ لیکن اس سب نے مجھےاور بھی مضبوط بنایا ۔ ان کا کہنا ہےیہ نام نہاد معاشرہ کسی کےحقوق کو کبھی بھی سمجھ نہیں سکا، جو معاشرہ والدین کو ، بچوں کو اور عورتوں کو ان کے حقوق دینےسے انکاری ہے مجھے اس معاشرے سے کوئی گلہ نہیں۔
 ہمارے ہاں قانون بن جاتے ہیں مگرلاگونہیں ہوتے  اور ہمارے حقوق سے متعلق آگاہی کی بات کی جائے تو خواجہ سرا قانون بننے کاابھی بہت سے سرکاری اداروں کو بھی علم نہیں۔ ہم خود جا جا کر ان کو بتاتے ہیں کہ ٹرانسجینڈرایکٹ 2018 آچکا ہے قانون کو سامنے رکھ کر اسکے مطابق کام کیا جائے۔

معاشرے میں عام لوگوں کی طرح خواجہ سراؤں کو بھی حقوق مل سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مخیر افراد و اداروں کے تعاون سے خواجہ سراؤں کے لیے  تعلیم، ایچ آئی وی اور دیگر طبی مسائل پر کام کر رہی ہیں۔ انہیں کئی طرح کے ہنر سکھائے جاتے ہیں تاکہ خواجہ سرا بھی خود مختار ہو کر بہتر کردار ادا کر سکیں۔
ببلی اور ان کی تنظیم کے دیگر ارکان حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ قانون تو بن گیا اس پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے، تاکہ معاشرے میں عام لوگوں کی طرح خواجہ سراؤں کو بھی حقوق مل سکیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آگاہی پہنچانے کے علاوہ وہ ایسے خاندانوں سے بھی رابطہ کرتے ہیں جن کے ہاں خواجہ سرا بچوں کی پیدائش ہوتی ہے اور انہیں بتاتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے حقوق کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں۔

کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: