Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈکیتیاں جو سوشل میڈیا نے ناکام بنائیں

ڈاکٹر خدیجہ نے ڈاکوؤں کے بارے میں اپنی فیملی کو واٹس ایپ کے ذریعے بتایا تھا (فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 22 اور 23 اگست کی درمیانی رات فیصل ٹاؤن کا علاقہ اچانک گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ اکبر چوک کے قریب ایک گھر کو پولیس نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا اور گھر کے اندر اور باہر سے مسلسل فائرنگ کا تبادلہ جاری تھا۔
پولیس کے سپیکر فونز سے لگاتار ایک اعلان کیا جا رہا تھا جس میں ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کو کہا جا رہا تھا۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ فائرنگ کا تبادلہ ڈاکوؤں اور پولیس کے درمیان ہو رہا ہے۔
تھانہ فیصل ٹاؤن کے ایس ایچ او رانا قادر نے اس رات کے مناظر دہراتے ہوئے اردو نیوز کو بتایا کہ 'میں ایک مجلس پر سکیورٹی کی ڈیوٹی ختم کر کے واپس آرہا تھا کہ اچانک وائرلیس پر کال چلی کہ فلاں گھر میں ڈکیتی ہو رہی ہے اور میری پوزیشن سے یہ گھر صرف ایک منٹ کے فاصلے پر تھا۔ اسی وقت میں نے اپنے تھانے کی فورس کو اکٹھا کیا اور ہم گھر کے باہر پہنچ گئے۔'
جب ہم گھر کے باہر پہنچے تو گھر کے مالک حاجی اقبال بھی گھر کے باہر پہنچ چکے تھے وہ اس وقت گلبرگ کے علاقے میں تھے جب ان کے گھر واردات کا آغاز ہوا۔
حاجی اقبال نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'میں گلبرگ سے فیصل ٹاؤن کی طرف نکل رہا تھا کہ اچانک میری بیٹی ڈاکٹر خدیجہ نے فیملی کے واٹس ایپ گروپ میں میسج کیا کہ ہمارے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں۔ میں نے اسی وقت اپنی بیٹی کو کال کی تو انہوں نے مجھے جو صورت حال بتائی وہ بہت خوفناک تھی۔'
میں نے اسی وقت ایمرجنسی ہیلپ لائن پر کال کی اور ڈکیتی کی واردات کا بتایا اور خود بھی گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ میرے ساتھ میرا ڈرائیور بھی تھا۔ پولیس میرے ساتھ مسلسل رابطے میں آ گئی، چار سے پانچ منٹ میں جب میں گھر کے باہر پہنچا تو پولیس بھی پہنچ چکی تھی۔
ایس ایچ او رانا قادر بتاتے ہیں کہ ہم نے اندر کی صورت حال جاننے کے لیے ڈاکٹر خدیجہ کو واٹس ایپ کال پر لیا۔ انہوں نے بتایا کہ 'گھر کے ملازم کو ڈاکوؤں نے باندھ دیا ہے اور میرے بھائی سلمان کو گن پوائنٹ پر میرے کمرے کے باہر رکھا ہے اور مجھے دروازہ کھولنے کے لیے دھمکا رہے ہیں۔' 
'میں نے اسی وقت پولیس فورس گھر کے چاروں طرف پھیلا دی۔ پولیس کی نقل و حرکت ڈاکوؤں نے جلدی بھانپ لی اور فائرنگ شروع کر دی۔'

رواں برس لاہور میں مزاحمت کے دوران 20 افراد قتل ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

رانا قادر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پہلا فائر مجھ سے ایک فٹ دور بیرونی دیوار کو لگا کیونکہ اس وقت تک ہم گیٹ کھول کر اندر آ چکے تھے۔ پولیس نے جوابی فائر کیا لیکن ساتھ ہی ڈاکوؤں کو سپیکر فون پر سرنڈر کرنے کا بھی کہا لیکن وہ نہیں مانے اور فائرنگ جاری رکھی۔
یرغمال بنائے گئے سلمان کے مطابق 'جیسے ہی ڈاکوؤں نے پولیس کو دیکھا تو فائرنگ کے لییے پوزیشنز سنبھال لیں اور میری طرف ان کی توجہ کم ہو گئی۔ میں بھاگ کر پہلی منزل پر چڑھا اور خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا، میرا فون ڈاکوؤں کے پاس ہی تھا۔'
ایس ایچ او رانا قادر نے ڈکیتی واردات کی مزید تفصیل بتائی کہ ڈاکو گھر کی پہلی منزل پر پہنچ گئے لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ پولیس پہلے ہی چھت پر موجود ہے۔
'انہوں نے ساتھ والے گھر پر چھلانگ لگائی، یہ دو ڈاکو تھے ایک فائرنگ سے کور دیتا دوسرا چھلانگ لگاتا، پھر پہلا چھلانگ لگاتا تو دوسرا کور دیتا۔ یہ فائرنگ کا تبادلہ کوئی آدھا گھنٹہ جاری رہا اور بالآخر دونوں ڈاکو مارے گئے۔'
رانا قادر نے بتایا کہ کل چار ڈاکو تھے، دو ڈاکو باہر پہرے پر تھے جو پولیس کو دیکھ کر فرار ہو گئے۔
مرنے والے ڈاکوؤں کی شناخت سلمان اور ساجد کے نام سے ہوئی جو کہ ضلع قصور کے رہائشی تھے۔

پاکستانی نوجوانوں میں سوشل میڈیا کا استعمال بڑھا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور کے اسی علاقے فیصل ٹاؤن میں رواں سال 15 جون کو ڈکیتی کی واردات ہوئی جس میں دو ڈاکوؤں نے اہل خانہ کو یرغمال بنا لیا تھا۔
ایس ایچ او فیصل ٹاؤن رانا قادر بتاتے ہیں کہ وہ واردات بھی ڈرامائی تھی۔ 'اس گھر کی ایک عورت سیلف آئسولیشن میں تھیں اور ان دنوں کورونا کا زور تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس لڑکی کا نام صبا تھا اور انہیں جیسے ہی انداز ہوا کہ نیچے گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں تو انہوں نے فیس بک پر سٹیٹس اپڈیٹ کر دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ون فائیو پر کالز کا بھونچال آ گیا۔ ہر اس شخص نے ون فائیو پر کال کی جو انہیں جانتا تھا اور فیس بک پر ایڈ تھا۔'
رانا قادر بتاتے ہیں کہ پولیس ساڑھے تین منٹ میں اس گھر کے باہر پہنچ گئی تھی اور پندرہ منٹ تک ڈاکوؤں نے ہتھیار پھینک دیے تھے۔ شاید ایک دو گولیاں بھی چلیں لیکن جانی نقصان نہیں ہوا۔ جب ڈاکوؤں کو یقین ہو گیا کہ وہ نہ تو فرار ہو سکتے ہیں اور نہ ہی مقابلہ کر سکتے تو انہوں نے ہتھیار پھینک دیے۔

صبا نام کی لڑکی نے فیس بک پر ڈاکوؤں سے متعلق سٹیٹس اپڈیٹ کیا تھا (فوٹو: میکس پکسل)

ایس ایچ او کے مطابق 'میری لاہور کی پوسٹنگ میں یہ دو واقعات تین ماہ کے وقفے سے ہوئے اور دونوں میں سوشل میڈیا کی وجہ سے پولیس کا رسپانس بہت زیادہ بہتر رہا۔'
'میں تو یہی کہوں گا کہ سوشل میڈیا ایک مضبوط ہتھیار ہے جب بھی آپ کسی دشواری سے دو چار ہوں تو اپنے حواس پر قابو رکھیں اور سوشل میڈیا کو ضرور استعمال کریں، کیونکہ اس سے آپ کی بات بیک وقت بہت سی جگہوں پر دیکھی اور سنی جا رہی ہوتی ہے۔'

شیئر: