Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچہ ویسا کیسے بنے جیسا آپ چاہتے ہیں؟

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ بچے سب سے زیادہ اثر والدین کے طرزعمل سے لیتے ہیں (فوٹو: فری پک)
تعلیم اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ والدین اپنے بچوں کے ساتھ جس طرح سے بات چیت کرتے ہیں، بچوں پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
سیدتی میگزین نے بچوں کی تربیت سے متعلق ماہر امور اطفال پروفیسر ڈاکٹر ابتہاج سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم بچے کی زندگی کے پہلے سالوں تک ہی محدود نہیں ہے یہ جوانی میں بھی جاری رہتی ہے۔ اس لیے بچوں کی مستقل نگرانی انہیں ذہنی اور جسمانی حفاظت کا احساس دیتی ہے۔
ابتدائی سالوں میں بچے کو مستقل تعاون اور رہنمائی فراہم کرنا، اسے جذباتی پہلوؤں اور بہتر رویوں میں پوری طرح سے ترقی کرنے میں مدد دیتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا ہے جو اس کی شخصیت کو مضبوط بنانے میں مدد دیتا ہے۔
جوانی کے دوران رہنمائی اور نگرانی کی اہمیت بچپن کے مقابلے میں کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی کیوں کہ بعض اوقات زندگی کے کٹھن مراحل سے گزرنے کی وجہ سے نوجوان گھبرا جاتے ہیں انہیں نگرانی کے ذریعے منشیات اور مایوسی جیسی بری سرگرمیوں سے بچایا جا سکتا ہے۔

بہترین تعلق رکھنا

بچوں کو شرمندہ کرنے اور ان پر چیخنے چلانے کی بجائے حوصلہ افرائی اور انعام و سزا کا طریقہ استعمال کیا جائے توبہتر ہے۔ تربیت اطفال میں اس طریقے کو مثبت تربیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس میں بچے کو نرمی ملتی ہے جو اسے آزادی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ طریقہ ہمدردی پرمبنی ہے، اس میں بچے کے جذبات، ہمدردی اور ردعمل کی طرف توجہ دی گئی ہے۔ انعام و سزا کے نتیجے میں اسے اپنے غلط رویوں یا سلوک کے بارے میں سوچنے کا موقع ملتا ہے۔

خوداعتمادی کو بڑھانا

خوداعتمادی کی تعمیر کا آغاز بچپن سے ہی ہوتا ہے، بچے کو جب کچھ  اختیارات ملتے ہیں تو وہ خود اعتماد ی محسوس کرتا ہے۔
جب وہ کسی خاص مقصد کے حصول کی طرف بڑھنا شروع ہوتا ہے تواس کا خاندان تعریف کرتا ہے اور اس کے اچھے برتاؤ کو سراہتا ہے۔ اس کی نئی مہارتوں اور قابلیتوں کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بارے میں اچھا محسوس کرتا ہے۔

بچے کو شراکت اور تعاون کا جذبہ سکھانا

بچپن کے ابتدائی مرحلے میں بچے کے لیے دوسروں کے ساتھ کوئی چیز بانٹنا مشکل ہوسکتا ہے وہ اپنی ضرورتوں کو ہر چیز سے پہلے  دیکھتا ہے لیکن آہستہ آہستہ اسے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ اشتراک کرنے کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہاں والدین کا کردار بڑا اہم ہوتا ہے۔
 اس کے اچھے کاموں کی وجہ سے بچے کی حوصلہ افزائی اورتعریف کرنی چاہیے۔ بچے کو کھیلوں پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے جن کا مقصد دوسروں سے صرف مقابلہ جیتنا ہوتا ہے ایسی اشتراک پر مبنی سرگرمیوں کی تعلیم دیں جو سب کو ساتھ ملا کر چلنے کی عادت ڈالے۔

بچوں کو کوئی بات سکھانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ والدین ان کے سامنے خود نمونہ اورمثال بنیں (فوٹو: فری پک)

احترام اور تعریف کے ساتھ پرورش

  والدین اپنے بچوں کو یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں کا احترام کریں اور ان کے جذبات  کو سمجھیں اس کے لیے بہترین ذریعہ اور طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے سامنے اس کا نمونہ اورمثال پیش کریں کہ کسی کے ساتھ اچھا سلوک  کیا ہوتا ہے اور دوسروں کا احترام کیسے کیا جاتا ہے۔
جیسے مداخلت کے بغیربڑوں کی بات سننا۔ دوسروں کی آرا کا احترام کرنا اور دوسروں کے ساتھ مہربانی کے ساتھ پیش آنا، یہ رویے بچے والدین کے سلوک سے اچھی طرح سیکھ سکتے ہیں۔

بچے کو معافی کی زبان سکھانا

عام طور پر بچے ایک دوسرے سے معافی مانگنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست عادت نہیں ہے۔ بچوں کو سکھانا چاہیے کہ معذرت کے الفاظ آسانی سے واضح طور پر کہنے چاہیں بلکہ جب اس کی طرف سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے یہ کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہوتی۔ بچہ جب کسی سے غلطی پر معذرت کر لے تو اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

جذباتی ذہانت کو پروان چڑھانا

جذباتی ذہانت کی نشوونما اور بچے میں ہمدردی کے تصور کو تقویت دینا تربیت کے سب سے اہم طریقوں میں سے ہے جو اسے ضرور سکھانا چاہیے۔ یہ اصول اس پر مبنی ہے کہ بچہ خود کو دوسروں کی جگہ رکھ ان کے جذبات کو محسوس کرے۔
  بچے اور اس کے دوستوں میں سے کسی کے درمیان اختلاف رائے کی صورت میں  بچے کو اپنے جذبات پر کنٹرول آنا چاہیے۔ اسی طرح اچھی رائے کی صورت میں اپنے دوست کی حوصلہ افزائی کرنے کے علاوہ اپنے دوست کے احساسات کا تصور بھی کر سکے۔

زیادہ سختی بچوں کی شخصیت پر برے اثرات ڈالتی ہے (فوٹو: فری پک)

آمرانہ تربیت

سختی کرنے والے والدین پابندیوں پربہت زیادہ توجہ دیتے ہیں جبکہ ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔
ماہرین ایسے والدین کو بچوں کی کم دیکھ بھال کرنے والے والدین میں شمار کرتے ہیں۔ ایسے والدین بچوں سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ برتاؤ کرنے میں کم لچک کا مظاہرہ  کرتے ہیں۔

نرمی کے ساتھ تربیت

اس میں والدین اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رہنمائی اور ہدایات کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ماہرین ایسے افراد کو بچوں کا دوست قرار دیتے ہیں۔

اچھے کاموں پر بچوں کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی جانی چاہیے (فوٹو: فری پک)

ایسے والدین اوران کے بچوں کے درمیان بات چیت کھلی ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے ترجیحات کا تعین کریں وہ اپنا فیصلہ دینے سے قبل بچوں کو فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔

بغیر شراکت کے تربیت

اس طریقے میں والدین  اپنے بچوں کو مکمل آزادی دیتے ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات والدین کچھ اہم فیصلوں میں مداخلت بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں تربیت کے طریقہ کار سے پوری طرح آگاہی نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے وہ اکثر اپنے بچوں کے فیصلوں اور انتخاب میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔
اکثر وہ اپنے بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق ہر کام  کرنے کی اجازت دیتے ہیں اس کی وجہ تربیت کے بارے میں ان کی معلومات میں کمی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ کیسا سلوک کریں اور ان کی دیکھ بھال کیسے کریں۔ ان کا  بچوں کے ساتھ بات چیت کا ماحول نہیں ہوتا۔

باضابطہ یا قابل اعتماد تربیت

اس طریقے میں والدین اپنی منطقی سوچ اور بچوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں، اسی وجہ سے ان کے بچوں میں خوداعتمادی نظم و ضبط اورغوروفکر کی صلاحیت دیگر بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
ایسے والدین کو تربیت کے لحاظ سے ممتاز سمجھاجاتا ہے۔ ان کو اپنے بچوں سے بہت زیادہ توقعات ہوتی ہیں، وہ اہداف واضح طور پر طے کرتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے انہیں حاصل کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں۔

شیئر: