Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا گوگل اپنا آپریٹنگ سسٹم ’اینڈرائیڈ‘ اور سرچ اینجن ’گوگل کروم‘ بیچنے جا رہا ہے؟

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ گوگل معاہدوں کے تحت مصنوعی ذہانت میں بھی اپنی اجارہ داری قائم کر سکتا ہے (فائل فوٹو: گوگل)
امریکہ کی ایک وفاقی عدالت کے جج نے کہا ہے کہ عدالت ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کو اس کا آپریٹنگ سسٹم ’اینڈرائیڈ‘ اور سرچ انجن ’کُروم‘ کو بیچنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔
سی این این کے مطابق وفاقی عدالت میں گوگل کے خلاف امریکہ کے انسداد اجارہ داری قوانین کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔
مقدمے میں بنیادی طور پر یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا کہ گوگل نے اپنے سرچ انجن کی اجارہ داری برقرار رکھنے کے لیے مختلف کمپنیوں کے ساتھ ایسے خصوصی معاہدے کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے دوسرے سرچ انجنز کے لیے مقابلہ کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔
مثال کے طور پر گوگل نے ’ایپل‘ اور دیگر فون ساز کمپنیوں کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے کیے تاکہ ان کی ڈیوائسز پر گوگل سرچ ڈیفالٹ کے طور پر ہی موجود ہو۔
اسی طرح گوگل نے اپنے ’اینڈرائیڈ سسٹم‘ اور ’کروم براؤزر‘ میں بھی اپنی خدمات لازمی شامل کر رکھی تھیں جس سے صارفین کے پاس کوئی دوسرا آپشن عملی طور پر باقی نہیں رہتا تھا۔
عدالت نے گزشتہ سال فیصلہ دیا تھا کہ گوگل نے یہ سب کر کے امریکی انسدادِ اجارہ داری قوانین کی خلاف ورزی کی اور سرچ مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھی۔ اب عدالت نے ایک اور فیصلہ دیا ہے جس میں گوگل کو ’کروم‘ اور ’اینڈورائڈ‘ کو فروخت کے بجائے اصلاحات جیسے اقدامات کا پابند بنایا گیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق گوگل کو اپنے سرچ ڈیٹا کے کچھ حصے اپنے مد مقابل کمپنیوں کو فراہم کرنا ہوں گے تاکہ مقابلے کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی گوگل کو ایسے خصوصی معاہدوں سے بھی روکا جائے گا جن کے تحت اس کی ’کروم‘، ’سرچ‘، ’گوگل اسسٹنٹ‘ اور ’جیمینی ایپ‘ جیسی سروسز لازمی طور پر تقسیم کی جاتی ہیں۔

فیصلے کے مطابق گوگل کو اپنی سروسز بیچنے کے بجائے ان میں اصلاحات کرنا ہوں گی (فائل فوٹو: پکسابے)

امریکی ضلعی عدالت کے جج امیت مہتا نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’وہ جُزوی طور پر گوگل کی تجویز کردہ اصلاحات کو قبول کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مصنوعی ذہانت کے تیز رفتار عروج نے اس مقدمے کی سمت ہی بدل دی ہے اور ضروری ہے کہ گوگل کی سرچ میں اجارہ داری مصنوعی ذہانت کے شعبے میں نہ منتقل ہو۔‘
دسری جانب گوگل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’عدالت کے فیصلے نے اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کی صنعت کس طرح بدل رہی ہے اور مصنوعی ذہانت نے لوگوں کے لیے معلومات تک پہنچنے کے کئی نئے راستے کھول دیے ہیں۔‘ تاہم کمپنی نے سرچ ڈیٹا کے تبادلے سے صارفین کی پرائیویسی پر پڑنے والے اثرات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
امریکی محکمہ انصاف نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ’یہ فیصلہ تسلیم کرتا ہے کہ سرچ مارکیٹ کو کھولنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ گوگل مصنوعی ذہانت کے میدان میں بھی وہی اجارہ دارانہ طریقے استعمال نہ کرے جو اس نے سرچ مارکیٹ میں کیے۔‘

مختلف کمپنیوں کے موبائلز میں گوگل کی سروسز ڈیفالٹ مہیا ہوتی ہیں (فوٹو: گیٹی)

فیصلے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ گوگل کو بڑی کامیابی ملی ہے، لیکن خصوصی معاہدوں پر پابندی کا مطلب یہ ہے کہ کمپنی کو اب صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے مزید محنت کرنا ہوگی۔‘
دوسری جانب کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ ’ایپل اور گوگل کے درمیان اربوں ڈالر کے معاہدے، جن کے تحت گوگل کو ایپل کے آلات پر بطور بنیادی سرچ انجن رکھا جاتا ہے، بدستور جاری رہ سکتے ہیں، جس سے دونوں کمپنیوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق اب مستقبل کی دوڑ اس بات پر ہے کہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال کے میدان میں کون سی کمپنی بہتر حل فراہم کرتی ہے اور صارفین کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کامیاب رہتی ہے۔

شیئر: