Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہلی فسادات میں مسلمانوں کو بچانے والے مہیندر سنگھ

فسادات کے دوران مسلمانوں کی املاک بھی جلائی گئیں (فوٹو ہفنگٹن پوسٹ)
چند روز قبل انڈین دارالحکومت دہلی بدترین نسل پرستانہ فساد کا شکار ہوا، ایسے میں مہیندر سنگھ اور اندرجیت سنگھ نامی دو سکھوں نے بلٹ موٹرسائیکل اور سکوٹی پر 60 سے 80 مسلمانوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔
اپنے مسلمان پڑوسیوں کی جان بچانے والے باپ اور بیٹے کا کہنا ہے کہ انہوں نے صورتحال دیکھ کر اندازہ کر لیا تھا کہ شمال مشرقی دہلی کے ہندو اکثریتی علاقے گوکل پوری میں معاملہ ہاتھ سے باہر نکل رہا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مسلم پڑوسیوں کو موٹرسائیکل پر قریبی آبادی کاردام پوری منتقل کیا۔
ہفنگٹن پوسٹ انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 53 سالہ مہیندر  سنگھ اور ان کے بیٹے نے بلٹ موٹرسائیکل اور سکوٹی پر مسلمانوں کو محفوظ مقام تک منتقل کیا۔ اس دوران انہوں نے متاثرہ مقام سے محفوظ جگہ کے لیے ایک گھنٹے میں تقریباً 20 چکر لگائے۔ مسلم مردوں، خواتین اور بچوں کو خطرے کی حدود سے باہر لے جانے والے باپ بیٹے نے مسلم نوجوانوں کو منتقل کرنے سے قبل انہیں سکھوں کی مخصوص پگڑیاں پہنا کر ان کی شناخت چھپائی۔
دو بچوں کے والد مہیندر سنگھ کے مطابق ’میں نے ہندو یا مسلمان نہیں بلکہ لوگوں کو دیکھا، چھوٹے بچوں کو دیکھا اور انہیں اپنے بچوں کی جگہ محسوس کیا۔ ہم نے اس لیے ایسا کیا تاکہ سبھی انسانیت کے ناطے مشکل کا شکار افراد کی مدد کر سکیں۔
امریکی ویب سائٹ کے مطابق دہلی میں تین روز تک جاری رہنے والے تشدد کے دوران مہیندر سنگھ نے بدترین واقعات بھی دیکھے، اس دوران 40 افراد قتل ہوئے۔ مسلمانوں کی دکانیں، گھر جلائے گئے اور ایک مسجد کو بھی لوٹنے کے بعد جلا دیا گیا۔ اپنی املاک چھوڑ کر بے دخل ہونے پر مجبور مسلم گھرانے ابھی تک واپس نہیں آ سکے ہیں۔

مسلمانوں کی املاک جلانے والے مودی کے حق میں نعرے لگاتے رہے (فوٹو اے ایف پی)

اپنی انسانیت نوازی کی وجہ سے کاردام پور کے مسلمانوں میں مقبول ہونے والے سردار باپ بیٹے اپنے علاقے میں الیکٹرونکس کی دکان چلاتے ہیں۔
مہیندر سنگھ کے لیے یہ پہلی بار نہیں کہ انہوں نے بدترین فسادات میں کسی اقلیت کو نشانہ بنتے دیکھا ہے۔ محض 13 برس کی عمر میں 1984 میں وہ دہلی کے سکھ مخالف فسادات بھی دیکھ چکے ہیں۔  بدترین تقسیم کا شکار ہو جانے والے انڈین معاشرے میں مہیندر سنگھ کی بہادری اور کردار گمشدہ امید کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
36 سال پرانی یادداشتیں تازہ کرتے ہوئے مہیندر سنگھ نے کہا کہ وہ 1984 کا جہنم بھگت چکے ہیں۔

فسادات کے دوران مرکزی حکومت کے ماتحت پولیس کے کردار پر بھی تنقید کی گئی (فوٹو روئٹرز)

دہلی کے اس متاثرہ علاقے میں کیا ہوا؟

بی جے پی لیڈر کپل  مشرا کی جانب سے متنازع شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے متعلق نفرت انگیز تقریر کے پانچ روز بعد 27 فروری کو بھی گوکلپوری میں بیشتر دکانیں بند تھیں۔
مہیندر سنگھ کے مطابق 24 فروری کی شام تقریباً پانچ بجے گوکلپوری نامی علاقے میں کشیدگی بڑھی۔

شمال مشرقی دہلی کے علاقے فسادات سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں (فوٹو اے ایف پی)

کچھ لوگوں نے جے شری رام اور انڈین وزیراعظم نریندرا مودی کے حق میں نعرے لگائے۔ اس دوران وہ غداروں کو مارنے کی آوازیں بھی لگاتے رہے۔
حالات کشیدہ ہوئے تو یہاں مقیم مسلمان جامعہ عربیہ مدینۃ العلوم نامی مسجد میں پناہ لینے لگے۔ اسی شام یہ مسجد لوٹنے کے بعد نذر آتش کر دی گئی۔
ایک مختصر میٹنگ کے بعد خوف اور وسوسوں کا شکار ہو جانے والے مسلمانوں نے فوری طور پر علاقہ چھوڑے کا فیصلہ کیا۔ مہیندر سنگھ کے مطابق انہوں نے پریشان حال افراد کو روکنے کی کوشش کی لیکن تشدد پر آمادہ افراد کی اکثریت دیکھ کر وہ نہ مانے تو انہوں نے مسلمانوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔
گوکلپوری کے مسلمانوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کے فیصلے پر مہیندر سنگھ نے بتایا کہ حالات اتنی تیزی سے خراب ہوئے کہ وہ اپنی کار کے بجائے وہیں موجود موٹرسائیکل اور سکوٹی کے استعمال پر مجبور ہوئے۔ جے شری رام اور انڈین وزیراعظم مودی کے حق میں نعرے لگانے والے ہندو ہجوم کو دیکھ کر مسلمان اتنے خوفزدہ تھے کہ انہیں ان کی مدد کا فیصلہ کرنا پڑا۔
مہیندر سنگھ نے اپنی دکان کے قریب موجود ایک مسلمان کی دکان کو جلانے والوں کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس علاقے میں دو روز تک مسلمانوں کے گھر اور دکانیں لوٹی اور جلائی جاتی رہیں۔

انڈین اپوزیشن نے مودی حکومت کو فسادات کا ذمہ دار قرار دیا ہے (فوٹو اے یف پی)

تشدد میں مصروف افراد کی شناخت کے سوال پر مہیندر سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ باہر سے آئے ہوئے لوگ تھے۔ وہ مودی کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔
ان سے پوچھا گیا کہ باہر سے آئے ہوئے لوگ کیسے جان سکتے ہیں کہ کس دکان کو آگ لگانی ہے، جس پر مہیندر سنگھ نے جواب دیا کہ ’وہ نہیں جان سکتے، اس سوال کا جواب بھی آپ کو معلوم ہو گا۔‘
مہیندر سنگھ کے مطابق ان کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو بچا کر اچھا نہیں کیا۔ ’ہم لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ کے منصوبے میں رکاوٹ بنے ہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگلا نشانہ ہمیں نہ بنایا جائے۔‘

شیئر: