Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ٹینس سٹار جو گم ہو گئے

ہارون رحیم منظر عام سے ایسے غائب ہوئے کہ ان کے خاندان والے بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہیں۔ فوٹو سوشل میڈیا
ویسے تو پاکستان کرکٹ، ہاکی، سکواش اور سنوکر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکا ہے لیکن ٹینس کورٹ میں بھی کچھ پاکستانی کھلاڑی ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنے دور کے صف اول کے کھلاڑیوں کو شکست سے دو چار کیا اور حریف کھلاڑی یہ خواہش کرتے کہ ٹورنامنٹ کے پہلے راؤنڈ میں ان سے سامنا نہ ہی کرنا پڑے۔
15 سال کی عمر میں نیشنل چیمپیئن شپ اور ڈیوس کپ میں پاکستان کی کرنے والے ہارون رحیم کو پاکستان کے اب تک کا سب سے عظیم کھلاڑی مانا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر وہ منظر عام سے ایسے غائب ہوئے کہ ان کے خاندان والے بھی نہیں جانتے کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
 
 12 نومبر 1949 کو لاہور میں پیدا ہونے والے ہارون رحیم کو 15 سال کی عمر میں ڈیوس کپ میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ڈیوس کپ میں کم عمر کھلاڑی کی نمائندگی کا اعزاز اب بھی پاکستان کے پاس موجود ہے۔
ہارون رحیم نے ٹینس کے تین گرینڈ سلام ٹورنامنٹس یو ایس اوپن، ومبلڈن اور فرنچ اوپن میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ انٹرنیشنل ٹینس کے تین گرینڈ سلام ٹورنامنٹس میں شرکت اور ان میچز میں کامیابی حاصل کرنا ٹینس کے میدان میں اب تک کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کا سب سے بڑا اعزاز ہے۔ ہارون رحیم نے ان تینوں ٹورنامنٹس میں نہ صرف سنگل مقابلوں بلکہ ڈبلز میں بھی کامیابی سمیٹی اور وہ واحد پاکستانی ٹینس کھلاڑی ہیں جنہوں نے گرینڈ سلام ٹورنامنٹس کے کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کی۔
پاکستان کے ٹینس کھلاڑی حمید الحق نے ہارون رحیم کے حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان  میں آج تک ہارون رحیم جیسا سنگلز کھیلنے والا کھلاڑی پیدا ہی نہیں ہوا۔ اعصام الحق ڈبلز کھیلنے والا کھلاڑی ہیں۔ ہارون رحیم  واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے پاکستان کی جانب سے اے ٹی پی کے ٹورنامنٹس جیتے۔
حمید الحق کے مطابق  پانچ بار ومبلڈن چیمپیئن رہنے والے سویڈش کھلاڑی بیورن بورگ نے اپنی کتاب میں ہارون رحیم کے بارے میں لکھا ہے کہ ’انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا ٹینلٹ ضائع ہوتے نہیں دیکھا۔
پاکستان کے نمبر ون رہنے والے سابق ٹینس کھلاڑی جمیل احمد  نے ہارون رحیم کے ساتھ کافی وقت گزارا ہے۔ جمیل احمد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہارون رحیم ایسے کھلاڑی تھے جو کسی بھی بڑے کھلاڑی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
’بڑے کھلاڑی گھبراتے تھے کہ کسی بھی ٹورنامنٹ کے ڈراز کے پہلے راؤنڈ میں ہارون رحیم کے ساتھ میچ تو نہیں پڑ گیا۔‘

سویڈش کھلاڑی بیورن بورگ نے اپنی کتاب میں ہارون کے بارے میں لکھا ہے کہ ’انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا ٹینلٹ ضائع ہوتے نہیں دیکھا۔‘ فوٹو پنٹرسٹ

ہارون رحیم گرینڈ نے سلام ٹورنامنٹس کے سنگلز مقابلوں میں فرنچ اوپن میں دوسرے راؤنڈ، ومبلڈن دوسرے جبکہ یو ایس اوپن کے تیسرے راونڈ تک رسائی حاصل کی۔ ڈبلز مقابلوں میں فرنچ اوپن کے دوسرے، ومبلڈن کے تیسرے جبکہ کے یو ایس اوپن کے ڈبلز مقابلوں میں ہارون رحیم نے کوارٹر فائنلز تک رسائی حاصل کی تھی۔ ہارون رحیم گرینڈ سلام ایونٹ جیتنے میں کامیاب تو نہیں ہوئے لیکن پروفیشنل ٹینس ٹورنامنٹس کے پانچ ٹائیٹل اپنے نام کیے ہیں۔ انٹرنینشل ٹینس میں ان کی رینکنگ 44  تھی جو کہ اب تک کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کی بہترین انٹرنیشنل رینکنگ ہے۔
ٹینس کے بہترین کھلاڑی ہونے پر امریکہ کی اس وقت کی ٹاپ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے ہارون رحیم کو ٹینس سکالرشپ آفر کی، جہاں پروفیشنل کوچز کی زیر تربیت رہ کر ان کے کھیل میں مزید بہتری آئی اور انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے لیے بے شمار فتوحات حاصل کیں۔
سابق ٹینس پلیئر حمید الحق بتاتے ہیں کہ امریکی نمبر ون ٹینس پلیئر جمی کونرز یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی جانب سے دوسرے نمبر پر کھیلا کرتے تھے اور ہارون رحیم یونیورسٹی کی پہلے نمبر پر نمائندگی کرتے تھے۔
سابق ٹینس کھلاڑی جمیل احمد بتاتے ہیں کہ جمی کونرز ومبلڈن چیمپیئن بنے تو ایک ہفتے بعد کسی ٹورنامنٹ میں ان کا مقابلہ ہارون رحیم کے ساتھ ہوا اور ہارون رحیم نے ومبلڈن چیمپیئن جمی کورنرز کو شکست دے دی۔
’وہ ایسے کھلاڑی تھے جنہوں نے اپنے دور میں سب بڑے کھلاڑیوں سے میچ جیتے۔

 

جمیل احمد نے بتایا کہ ہالی وڈ میں بھی ہارون رحیم کے بہت فالوورز موجود تھے۔ ’وہ بڑے سمارٹ اور خوبصورت نوجوان تھے اور کھلاڑی بھی بہترین تھے اس لیے ہالی وڈ کے اداکار اور اداکارائیں بھی ان کی مداح تھیں۔‘ جمیل احمد کے مطابق ان کو ٹھیک طرح سے سنبھالا ہی نہیں گیا وہ ایسے کھلاڑی تھے جو ٹاپ ٹین میں آرام سے آ سکتے تھے۔ ’ہارون رحیم اپنے ٹیلنٹ پر کھیلتے تھے اور پاکستان میں اتنا عظیم کھلاڑی ٹینس کے میدان میں نہیں آیا۔

پاکستان ٹینس کا اتنا بڑا نام کہاں غائب ہوگیا؟

ہارون رحیم کے والد پاکستان کے سول سروس میں ملازم تھے جن کو ٹینس سے بے انتہا لگاؤ تھا اور اپنے بچوں کو ٹینس کھلاڑی کے طور دیکھنا ان کی خواہش تھی۔ ہارون رحیم کے علاوہ  ان کے بھائی ذولفقار رحیم ، سرفراز رحیم اور بہن شہناز نے بھی قومی چیمپیئن کے اعزاز اپنے نام کیے۔
15 سال کی عمر میں قومی ہیرو بننے والیے ہارون رحیم آج بھی ٹینس کے کھلاڑیوں کے رول ماڈل کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔
1980 کے بعد ہارون رحیم منظر عام سے اچانک غائب ہو گئے۔ ان کے ساتھ ایسا کیا واقع پیش آیا کہ وہ غائب ہو گئے اس حوالے سے ان کے قریبی حلقوں میں مختلف باتیں زیر گردش ہیں۔
سابق پاکستانی کھلاڑی حمید الحق ان کے اچانک منظر عام سے غائب ہونے کی ایک وجہ شادی کی ناکامی بھی بتاتے ہیں۔ ’اس حوالے سے مختلف باتیں کی جاتی ہیں ، ہارون رحیم نے امریکہ میں ایک جج کی بیٹی کے ساتھ شادی کی تھی اور وہ ان کی پسند کی شادی تھی لیکن نباہ نہ ہوسکا جس کی وجہ سے ہارون کافی پریشان اور دلبرداشتہ ہو گئے تھے۔‘ انہوں نے جو پیسہ کمایا تھا وہ امریکی قانون کے مطابق آدھا خاتون کو دینا پڑا۔

جمیل احمد کے مطابق کچھ انڈین پلیئرز جو ان کے دوست ہیں انہوں نے ایک بار ہارون کو انڈیا میں دیکھا تھا۔ فوٹو سوشل میڈیا

اسی پریشانی کے دوران ان کے جڑواں بھائی، جو کہ ان کے ساتھ امریکہ میں ہی رہتے تھے ان کا بھی انتقال ہو گیا اس کے بعد ہارون رحیم کہاں گئے کسی کو اس بارے میں علم نہیں ہے۔
جمیل احمد اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ان کے قریب تر ہونے کے باوجود  میرے علم میں بھی نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے اور اس کی کیا وجہ بنی۔ ’شادی میں ناکامی بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ یہی بڑی وجہ تھی، ان کے جڑواں فاروق رحیم کے انتقال پر ان کو بہت صدمہ ہوا تھا اور اس کے بعد سے وہ اچانک غائب ہو گئے۔‘
جمیل احمد نے بتایا کہ کچھ انڈین پلیئرز، جو ان کے دوست ہیں انہوں نے ایک بار ہارون کو انڈیا میں دیکھا تھا، جس کے بعد ان کو ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اس عظیم کھلاڑی کا سراغ نہ لگ سکا’ آخری بار ان سے رابطہ ہوئے اب تو پچیس تیس سال ہو چکے ہیں۔
حمید الحق کے مطابق انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن سابق کھلاڑیوں کی مالی مدد کرنے کے لیے فنڈز مختص کرتی ہے اور ہارون رحیم کا فنڈ بھی ان کے پاس موجود ہے۔ ‘آئی ٹی ایف بھی ہارون رحیم کی تلاش میں ہے کہ ان کو فنڈز دیے جا سکیں لیکن ہارون رحیم کہاں ہیں یہ ان کے خاندان والے بھی نہیں جانتے۔

شیئر: